منگل 15 اپریل 2025 - 20:00
وقف ترمیمی بل ۲۰۲۵ء، ایک خطرناک گہری سیاسی سازش: مولانا علی حیدر فرشتہ

حوزہ/ وقف ایک ایسی جائیداد ہے جو مذہبی اور خیراتی مقاصد کے لیے مخصوص ہے۔ اسلامی قوانین کے تحت، اس پراپرٹی کو خیراتی یا مذہبی مقاصد کے علاوہ کسی اور چیز کے لیے استعمال کرنا منع ہے۔ جائیداد کو وقف کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اب یہ کسی خاص شخص کی ملکیت نہیں ہے۔ اب اللہ کے نام پر ہے۔ ایک بار جب کسی جائیداد کو وقف قرار دے دیا جائے تو دوبارہ ملکیت کے حقوق حاصل نہیں کیے جا سکتے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،حیدرآباد دکن/ مولانا علی حیدر فرشتہ،سرپرست مجمع علماء و خطباء حیدرآباد دکن نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ وقف ایک ایسی جائیداد ہے جو مذہبی اور خیراتی مقاصد کے لیے مخصوص ہے۔ اسلامی قوانین کے تحت، اس پراپرٹی کو خیراتی یا مذہبی مقاصد کے علاوہ کسی اور چیز کے لیے استعمال کرنا منع ہے۔ جائیداد کو وقف کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اب یہ کسی خاص شخص کی ملکیت نہیں ہے۔ اب اللہ کے نام پر ہے۔ ایک بار جب کسی جائیداد کو وقف قرار دے دیا جائے تو دوبارہ ملکیت کے حقوق حاصل نہیں کیے جا سکتے۔

انہوں نے کہا کہ انڈیا کی سپریم کورٹ نے جنوری 1998 میں دیے گئے اپنے ایک فیصلے میں یہ بھی کہا تھا کہ 'ایک بار جب کوئی جائیداد وقف ہو جائے تو وہ ہمیشہ کے لیے وقف رہتی ہے‘‘۔ہندوستانی ریلوے اور ہندوستانی فوج کے بعد، وقف بورڈ ملک میں تیسری سب سے بڑی جائیداد کا مالک ہے۔ اس وقت ملک بھر میں تقریباً 8 لاکھ 70 ہزار جائیدادوں پر وقف بورڈ کا کنٹرول ہے۔ یہ جائیدادیں تقریباً 9 لاکھ 40 ہزار ایکڑ اراضی پر پھیلی ہوئی ہیں۔ اس کی تخمینہ لاگت 1 لاکھ 20 ہزار کروڑ روپے ہے۔ دنیا میں وقف املاک کی سب سے زیادہ تعداد ہندوستان میں ہے۔

انکا مزید کہنا تھا کہ’وقف ترمیمی بل‘ لوک سبھا کے بعد راجیہ سبھا سے بھی پاس ہو گیا ہے۔ صدر جہوریہ کی مہر کے بعد وقف ترمیمی بل نے قانونی شکل اختیارکرلی ہے۔

مولانا علی حیدر فرشتہ نے کہا کہ ہندوستانی مسلمانوں میں وقف ترمیمی بل کی منظوری کے بعد اضطراب و بے چینی اور احساس محرومی کا ماحول پایا جارہا ہے۔مختلف تنظیموں اور اداروں کی طرف سے جگہ جگہ احتجاج بھی ہو رہے ہیں۔مذمتی بیانات کی نشر و اشاعت کا سلسلہ بھی جاری ہے۔آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور دیگر تنظیموں کی طرف سے سپریم کورٹ آف انڈیا کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا گیا ہے۔ محرومیوں اور مایوسیوں کے ہر سمت پھیلے ہوئے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں عدالت عظمیٰ ہی ایک واحد ٹمٹماتی ہوئی امید و انصاف کی کرن نظر آتی ہے۔دیکھئے کیا ہو تا ہے۔اسی کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو چاہیئے کہ جوش سے زیادہ ہوش سے کام لیں ۔صحیح حکمت عملی اختیار کریں۔مسلمانوں کو مذکورہ وقف بل کے خلاف کوئی قدم اٹھانے سے پہلے یہ بھی €ذہن میں رکھناہوگاکہ وقف ترمیمی قانون کی واپسی مسلمانوں سے متعلق حکومت کی بد نیتی اور نفرت آمیز پالیسی کے پیش نظر آسان نہیں ہے ۔ایسا نہ ہو کہ : ’’کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے‘‘۔

سرپرست مجمع علماء و خطباء نے کہا کہ وقف کا مسئلہ بیشک مذہبی مسئلہ ہے مگروقف کا مسئلہ عام مسلمانوں سے جڑاہوانہیں ہے اور نہ اُسے عوامی بنانے کی کوشش کی گئی۔یہ وقت خود احتسا بی کا ہے کہ اوقاف سے کتنے مسلمانوں کو کتنا فائدہ پہونچتا تھا۔اور متنازعہ وقف بل سے کتنے مسلمانوں کو کتنا نقصان پہونچ سکتا ہے۔

آخر میں کہا کہ بلا شبہ وقف ترمیمی بل۲۰۲۵ء ایک خطرناک گہری سیاسی سازش ہے ۔کھلم کھلا شریعت میں مداخلت ہے۔مگراس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مسلمانوں نے جان بوجھ کر یا ناسمجھ بن کر سرکار کو خود یہ موقع فراہم کیاہے کہ وہ اوقاف کی زمینوں پر متصرف ہوجائے ۔تو پھر جزع و فزع ،چیخ و پکار کیسی؟یاد رکھئے اکثر ضرورت سے زیادہ جزع و فزع پریشانیوں میں کمی کرنے کے بجائے اضافہ کا باعث ہوجاتا ہے اور صحیح فیصلہ کرنے کی قوت کو سلب کرلیتا ہے۔اور صبرکو بہر حال کامیابی کی کنجی کہا جاتا ہے۔اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha