حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حیدرآباد دکن/ کل ہند مجلس علماء و ذاکرین کے صدر مولانا ڈاکٹر سید نثار حسین حیدر آغا نے مرکزی حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ میں منظور کیے گئے وقف ترمیمی بل کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے غیر شرعی، غیر آئینی، غیر جمہوری اور غیر منصفانہ قرار دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وقف ایک خالص مذہبی اثاثہ ہے، جس پر حکومت یا ریاست کا کوئی اختیار نہیں۔ "ہمارے بزرگوں نے جو جائیدادیں اللہ کے نام پر وقف کی ہیں، ان میں تصرف کا حق کسی کو حاصل نہیں، حتیٰ کہ واقف کو بھی نہیں، کیونکہ وقف کی گئی ملکیت اللہ کی ملکیت بن جاتی ہے اور اسے صرف اسی مقصد کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے جس کے لیے وہ وقف کی گئی ہو۔
مولانا آغا نے مزید کہا کہ یہ ترمیمی بل نہ صرف شریعت اسلامی کے خلاف ہے بلکہ ہندوستانی آئین اور جمہوری اصولوں کے بھی منافی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلم کمیونٹی مرکزی حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ فوری طور پر اس بل کو واپس لے اور وقف بورڈ کو اس کی سابقہ خودمختاری کے ساتھ کام کرنے دے تاکہ مسلمان بھی اپنی مذہبی املاک کا انتظام و انصرام دیگر مذاہب کی طرح خود سنبھال سکیں۔
مولانا آغا نے متنبہ کیا کہ اگر حکومت نے مسلمانوں کے اس مطالبے کو نظر انداز کیا اور بل پر اصرار جاری رکھا، تو ملت اسلامیہ پورے ملک میں پرامن احتجاج کا آغاز کرے گی اور قانونی چارہ جوئی سے بھی دریغ نہیں کرے گی۔
انہوں نے اپوزیشن جماعتوں کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے پارلیمنٹ میں مسلمانوں کے حقوق کا دفاع کیا، تاہم ان جماعتوں پر بھی کڑی تنقید کی جو حکومت کا ساتھ دے کر اس متنازعہ بل کی حمایت میں کھڑی ہوئیں۔ مولانا آغا نے کہا کہ "مسلم سماج ایسی پارٹیوں کو کبھی معاف نہیں کرے گا، اور آنے والے دنوں میں انہیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔"
آپ کا تبصرہ