تحریر: ملک توفیق حسین وکھرون پلوامہ
حوزہ نیوز ایجنسی| ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک بار پھر ایک ایسے قانون کا سامنا ہے جو نہ صرف ان کی مذہبی شناخت کو مجروح کرتا ہے، بلکہ ان کی مذہبی خودمختاری اور وقار کو بھی داؤ پر لگا دیتا ہے۔ وقف ترمیمی بل کی صورت میں سامنے آنے والی یہ نئی قانون سازی ایک سنگین خطرہ بن کر ابھری ہے جو ملک بھر کے مسلمانوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔
وقف کا نظام اسلامی تعلیمات کے تحت ایک باضابطہ ادارہ ہے، جس کے ذریعے افراد اپنی زمین، جائیداد یا سرمایہ اللہ کی رضا کے لیے مخصوص کرتے ہیں تاکہ مسلمانوں کی تعلیم، فلاح و بہبود، عبادات اور رفاہی سرگرمیوں میں استعمال ہو سکے۔ یہ ایک مقدس اور اجتماعی امانت ہوتی ہے، جسے شرعی اصولوں کے مطابق متقی افراد اور علمائے کرام کی نگرانی میں چلایا جاتا ہے۔
لیکن وقف ترمیمی بل کے ذریعے حکومت نے اس پورے نظام پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی راہ ہموار کر دی ہے، جس کے نتیجے میں کئی تشویشناک پہلو سامنے آ رہے ہیں:
ترمیمی بل کے تحت اب یہ ضروری نہیں رہا کہ وقف بورڈ کا چیئرمین مسلمان ہو۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک ایسا فرد جو اسلامی عقائد سے ناواقف ہو، وہ ان مذہبی جائیدادوں اور اداروں کا نگران بن سکتا ہے جو صرف مسلمانوں کے دینی اور سماجی مقاصد کے لیے وقف کی گئی ہیں۔
خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ اب مذہبی خطبے اور جمعہ کے خطابات تک کو حکومت اپنے سیاسی بیانیے کے لیے استعمال کرے گی۔ علماء کرام پر دباؤ ڈالا جائے گا کہ وہ حکومت کے مطابق بات کریں، نہ کہ دین کے پیغام کو بیان کریں۔
وقف فنڈز کے ذریعے علماء کی تنخواہیں حکومت کے کنٹرول میں دی جائیں گی، جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ دین کے محافظوں کو سرکاری وفاداری کا پابند بنایا جائے گا۔ ایسی صورتحال میں حق گوئی، غیر جانب داری اور دینی غیرت شدید خطرے میں پڑ جاتی ہے۔
مراکز جیسی وقف جائیدادیں اب سرکاری منصوبوں کے تحت کسی بھی غیر متعلقہ مقصد کے لیے استعمال کی جا سکتی ہیں، جو کہ وقف کے بنیادی مقصد کے سراسر خلاف ہے۔
قانون کوئی اتفاقیہ اقدام نہیں بلکہ ایک منظم منصوبہ بندی کا حصہ ہے جس کا مقصد ملک کے مسلمانوں کو ان کی مذہبی، تہذیبی اور تعلیمی بنیادوں سے محروم کرنا ہے۔ یہ مذہبی اداروں پر کنٹرول حاصل کرنے، آوازوں کو دبانے اور مسلمانوں کو حاشیے پر دھکیلنے کی ایک کوشش ہے۔
یہ وقت ہے کہ ملک بھر کے مسلمان، علماء، وکلاء، طلباء اور سماجی رہنما اس بل کے خلاف متحد ہو کر آواز بلند کریں۔ یہ صرف ایک مذہبی معاملہ نہیں بلکہ آئینی، تہذیبی اور بنیادی انسانی حقوق کا مسئلہ ہے۔ اگر آج ہم خاموش رہے، تو کل ہماری آئندہ نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔
حکومت کا یہ اقدام صرف مسلمانوں کو دبانے کی کوشش نہیں بلکہ یہ ملک کے آئینی ڈھانچے، اقلیتوں کے حقوق، اور مذہبی آزادی پر براہ راست حملہ ہے۔ اگر اس قانون کو چیلنج نہ کیا گیا تو کل کوئی بھی مذہبی اقلیت محفوظ نہیں رہے گی۔
تاریخ ان قوموں کو یاد رکھتی ہے جنہوں نے ظلم کے خلاف آواز بلند کی، نہ کہ ان لوگوں کو جو خاموشی اختیار کر کے اپنی نسلوں کا مستقبل تاریک کر گئے۔
ابھی بھی وقت ہے! متحد ہوں، آواز اٹھائیں، اور اس قانون کو آئینی، قانونی اور جمہوری انداز میں چیلنج کریں۔
آپ کا تبصرہ