حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، لکھنؤ/ حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا مجتبٰی علی خان ادیب الہندی طاب ثراہ کی پچیسویں برسی پر کالا امام باڑہ پیر بخارہ میں مجلسِ ترحیم منعقد ہوئی، جس میں مؤمنین کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ مجلس کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا، بعدہ جناب احمد علی خاں، مولانا فیروز عباس اور جناب اطہر کاظمی نے بارگاہ معصومین علیہم السلام میں منظوم نذرانہ عقیدت پیش کیا۔

حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید ندیم اصغر رضوی (بنارس) نے مجلس عزا سے خطاب کرتے ہوئے امیر المومنین امام علی علیہ السلام کی مظلومیت کے چند گوشے بیان کئے۔
انہوں نے کہا کہ امیر المومنین امام علی علیہ السلام کے فضائل و کمالات سن کر انسان ان سے محبت کرتا ہے لیکن اگر اسی انسان کو مولا کی مظلومیت کا علم ہو جائے تو وہ حامی ہو جائے گا۔ کیونکہ مظلومیت حامی پیدا کرتی ہے۔
مولانا سید ندیم اصغر نے مزید کہا کہ امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت دنیا کے سامنے پیش کی گئی لہذا آج بلا تفریق مذہب و ملت اور بلا تفریق رنگ و نسل لوگ امام حسین علیہ السلام کی حمایت کرتے ہیں لیکن اگر لوگوں کو امیر المومنین علیہ السلام کی مظلومیت کا بھی علم ہوتا تو وہ آپ کی بھی حمایت کرتے اور آپ کے دشمنوں سے اظہار برأت کرتے۔
مولانا سید ندیم اصغر رضوی نے مرحوم مولانا ادیب الہندی صاحب کے قلمی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ جب "المرتضی" نامی کتاب میں امیر المومنین امام علی علیہ السلام کے حق کو چھپایا گیا، حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا، شکوک و شبہات پیدا کئے گئے تو مولانا ادیب الہندی صاحب مرحوم نے الامام نامی کتاب لکھ کر اس کا مدلل جواب دیا۔

مولانا سید ندیم اصغر رضوی نے مزید کہا کہ مولانا ادیب الہندی صاحب مرحوم نے جہاں ہندوستان میں طلاب کو درس دیا وہیں ایران اور شام کے حوزات علمیہ میں ان کی اعلی دینی تعلیم کے لئے بھی بنیادی خدمات انجام دی۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف ایک معلم تھے بلکہ وہ ایک مربی بھی تھے۔مجلسِ عزاء میں علماء، ذاکرین اور مؤمنین نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔









آپ کا تبصرہ