کتاب "قاسم سلیمانی؛ تاریخ ساز" کے مصنف جناب مجید الاسلام شاہ، جنہوں نے اس تحقیقی شاہکار کو زبانِ بنگلہ میں میں تحریر فرمایا۔
جنرل شہید قاسم سلیمانی کی زندگی اور موت بیک وقت ایک دور کا اختتام اور ایک نئے مباحثے کا آغاز تھی؛ وہ ایسی شخصیت تھے جن کا اثر صرف ایران کی سرحدوں تک محدود نہ تھا، بلکہ انہوں نے اپنی حکمتِ عملی اور دوراندیشی سے پورے مشرقِ وسطیٰ کے جیو پولیٹیکل نقشے کو ایک نئے انداز سے ترتیب دیا۔ اس کتاب میں ہم نے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ ایک عام دیہی نوجوان کس طرح اپنی حب الوطنی، ذہانت اور فولادی عزم کے ذریعے ایران کی سب سے طاقتور عسکری-سیاسی شخصیت بن گئے۔
اگر جنرل قاسم سلیمانی کی زندگی اور سرگرمیوں کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ صرف ایک فوجی کمانڈر نہ تھے، بلکہ مشرقِ وسطیٰ کی جیو پولیٹکس کے ایک ناگزیر باب کے معمار بن چکے تھے؛ ان کی موت محض ایک انسان کا خاتمہ نہیں تھی، بلکہ ایک عہد کا خاتمہ اور ایک نئے دور کا آغاز بھی تھی۔
اس کتاب کے ذریعے مصنف نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح ایک سادہ نوجوان ایران کے اقتدار کے مرکز تک پہنچا، کس طرح اس نے خطے کی سیاسی مساوات کو تبدیل کیا اور کس طرح اس کی موجودگی اور غیر موجودگی نے عالمی طاقتوں کی حکمتِ عملی کو متاثر کیا۔
شہید قاسم سلیمانی کی کامیابی کا راز ان کی "اسٹریٹجک بصیرت" اور "بے مثال نیٹ ورکنگ مہارت" میں پنہاں تھا؛ انہوں نے ایران کے اثر و رسوخ کو شیعہ محور کے ذریعے عراق، شام، لبنان اور حتیٰ کہ یمن تک پھیلایا، ان کی قیادت میں قدس فورسز صرف ایک انٹیلیجنس ایجنسی نہیں رہیں، بلکہ ایک بین الاقوامی کارروائی کا ستون بن گئیں، مگر اس طاقت کے پس پردہ خونریز جھڑپیں، نظریاتی تصادم، اور انسانی اقدار سے جڑے پیچیدہ سوالات چھپے ہوئے تھے۔ اس کتاب میں شہید قاسم سلیمانی کی کامیابیوں اور تنازعات دونوں کو انصاف کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
جنوری 2020 میں امریکی ڈرون حملے میں ان کی شہادت نے اگرچہ مشرقِ وسطیٰ میں ایران کی براہِ راست موجودگی کو کچھ کم کیا، مگر ان کی میراث اور اثرات آج بھی قائم ہیں۔ ایرانی عسکری و سیاسی ڈھانچے میں وہ ایک علامتی شخصیت بن چکے ہیں – ان کا نام بعض کے لیے باعثِ تحریک ہے، تو دوسروں کے لیے خوف اور غصے کا سبب۔ ایران کی پالیسی ان کے بعد کس رخ پر جائے گی یا شیعہ ملیشیاؤں میں ان کا خلا پُر ہو چکا ہے یا نہیں – یہ سوالات اب تک غیر متحقق ہیں۔
اس کتاب کا ایک بڑا مقصد سلیمانی کو "ایک انسانی زاویے سے" دیکھنا تھا۔ وہ میدانِ جنگ میں سخت گیر تھے، مگر اہلِ خانہ اور ساتھیوں کے لیے قابلِ اعتماد۔ مغربی طاقتوں کی نظر میں ایک دہشت گرد، لیکن ایرانی قوم کے لیے ایک قومی ہیرو۔ یہی تضاد انہیں تاریخ کی ایک پیچیدہ اور پُراسرار شخصیت بنا دیتا ہے۔
کتاب کے مصنف کا کہنا ہے کہ جنرل شہید قاسم سلیمانی کے سوانح ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ ایک فرد کی قیادت تاریخ کے دھارے کو کس طرح موڑ سکتی ہے؛ ساتھ ہی یہ بھی یاد دلاتے ہیں کہ اقتدار کی بازی میں فتح و شکست دائمی نہیں ہوتیں۔ مشرقِ وسطیٰ کی پرآشوب سیاست میں ان کا کردار مستقبل کے محققین کے لیے ایک گراں قدر مطالعہ ہوگا، اگر یہ کتاب قارئین کو ان پیچیدگیوں کو سمجھنے، سوال اٹھانے اور نئے زاویے دریافت کرنے میں مدد دے سکے، تو ہماری کوشش کامیاب ہوگی۔









آپ کا تبصرہ