حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مؤسسہ آموزش عالی اسراء کے شعبہ تخصصی تفسیر کے مدیر حجتالاسلام علی خلیلپور نے کہا ہے کہ عوام الناس بالخصوص علمی، فکری اور دینی حلقوں کی طرف سے تفسیر تسنیم کو بے حد سراہا جا رہا ہے، کیونکہ یہ تفسیر مختلف اسلامی و عقلی علوم کے حسین امتزاج سے مرتب کی گئی ہے اور ایک علمی شاہکار کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔
انہوں نے حوزه نیوز ایجنسی سے گفتگو میں کہا: "تفسیر تسنیم" آیت اللہ العظمیٰ جوادی آملی کی چالیس سالہ قرآنی محنت کا ثمر ہے، جو سن ۱۳۵۹ سے ۱۳۹۹ تک حوزہ علمیہ قم میں انجام پائی، اور اب یہ تفسیر ۸۰ جلدوں پر مشتمل ایک ہمہ جہت اور گراں قدر مجموعہ بن چکی ہے۔
حجتالاسلام خلیلپور کے مطابق، یہ تفسیر آیۂ ۲۸ سورہ مطففین سے ماخوذ نام رکھتی ہے، جہاں "تسنیم" جنت کے ایک ایسے چشمے کے طور پر ذکر ہوا ہے جس سے مقربینِ الہی سیراب ہوتے ہیں۔ یہ تفسیر بھی روحانیت و معرفت کا ایک ایسا علمی سرچشمہ ہے جو قرآن کی گہرائیوں میں تدبر کرنے والے تشنگانِ علم کو سیراب کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آیت اللہ جوادی آملی نے اس تفسیر میں حدیث، عرفان، اخلاق، فلسفہ، صرف و نحو سمیت دیگر اسلامی و عقلی علوم کو بہترین انداز میں قرآن فہمی کے لیے استعمال کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ تفسیر نہ صرف علمی لحاظ سے بلند پایہ ہے بلکہ ادبی و فکری سطح پر بھی نہایت گہرائی اور وسعت کی حامل ہے۔
حجتالاسلام خلیلپور نے یہ نکتہ بھی بیان کیا کہ تفسیر تسنیم میں استعمال ہونے والی زبان "ادبیات قرآنی" ہے جو عام عربی ادب سے مختلف اور مخصوص ہے، جس نے اس تفسیر کو ایک منفرد ادبی رنگ عطا کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مفسر کا انداز یہ رہا ہے کہ قرآن کی علمی، ادبی اور حکمی خوبصورتی کو ایک جامع انداز میں پیش کیا جائے، اور جب یہ سب اوصاف اعلیٰ ترین علمی معیار اور دقیق ویراستاری کے ساتھ یکجا ہوں، تو نتیجہ "تفسیر تسنیم" جیسا ماندگار علمی خزانہ بن جاتا ہے۔
یہ تفسیر اس وقت تہران کے بین الاقوامی کتاب میلے میں بھی پیش کی جا رہی ہے جہاں اسے مختلف علمی حلقوں کی جانب سے بھرپور پذیرائی حاصل ہو رہی ہے۔









آپ کا تبصرہ