حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مزارات جنت البقیع کے انہدام کے سو سال مکمل ہونے پر مولانا جلال حیدر نقوی کی کتاب ”جنت البقیع تاریخ، حقائق اور دستاویز“ کی تقریب رونمائی، باب العلم اوکھلا نئی دہلی میں منعقد ہوئی، جس میں علمائے کرام نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔

اس موقع پر پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ جنت البقیع سے ہمارا عقیدتی رشتہ ہے اور یہ مسئلہ کسی ایک فرقے سے مخصوص نہیں ہے، بلکہ وہاں اہل بیت علیہم السلام، اصحاب کرام اور ازواج مطہرات کی قبریں منہدم کی گئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مولانا جلال حیدر نقوی قابلِ مبارک باد ہیں کہ جنہوں نے اس موضوع پر یہ تحقیقی کارنامہ انجام دیا؛ میں جانتا ہوں کہ انہوں نے مسئلہ فلسطین پر امام خمینی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی قدس کی تحریک کو ہندوستان میں زندہ رکھا ہے اور وہ اسی طرح جنت البقیع کے مسئلے کو بھی وہ اٹھا رہے ہیں۔
کتاب کی رسم اجراء کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے مولانا قاضی سید محمد عسکری نے کہا کہ یہ کتاب جسے مولانا جلال حیدر صاحب نے ترتیب دیا ہے، ایک سنگ میل ہے؛ کتاب کے عنوان سے ہی یہ محسوس ہوتا ہے کہ بہت ہی مؤثر اور مفید کتاب تدوین پائی ہے۔
مولانا محمد علی محسن تقوی نے کہا کہ یہ کتاب وقت کی ضرورت تھی، اس لئے کہ ایک زمانہ تھا کہ آٹھ شوال کو مجالس ہوا کرتی تھیں؛ اس کے بعد احتجاجات کا سلسلہ شروع ہوا، مگر آج علمی خدمات کے ذریعے بھی بقیع کے موضوع کو دوبارہ زندہ کیا جا رہا ہے اور یہ قابلِ ستائش اقدام ہے؛ بہرحال تحریکِ جنت البقیع سے متعلق یہ کتاب جتنا مواد یک جا موجود ہے اتنا مواد آپ کو شاید کہیں اور نہ ملے، یہ کارنامہ قابلِ تعریف ہے۔

اس موقع پر مولانا رئیس احمد جارچوی نے کہا مولانا جلال حیدر صاحب قابلِ مبارکباد ہیں کہ اُنھوں نے بڑا کام کیا ہے؛ یہ کتاب بہت اچھی لکھی گئی ہے، کتاب سے شعور پیدا ہوتا ہے، لیکن کتاب لکھے کون ؟ جب کتاب پڑھنے والے نہیں ہیں، جس قوم کو کتاب پڑھنے کا شعور نہ ہو اسے اپنی تاریخ یاد ہی نہیں رہتی ۔
تقریب میں مولانا مقصود الحسن قاسمی نے کہا کہ میں سب سے پہلے کتاب کے مؤلف جناب مولانا جلال حیدر صاحب کو دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ سو سال پہلے جب جنت البقیع کو مسمار کیا گیا تھا تو اس وقت دار العلوم دیوبند کے مفتیان کرام نے متفقہ طور پر فتویٰ دیا تھا۔
مولانا حیدر عباس نوگانوی نے کہا کہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے کہ میں اس کتاب کے اجرا میں شامل ہوا؛ جلال صاحب جس روز جامعۃ المنتظر میں داخل ہوئے تھے، مجھے وہ وقت بھی یاد ہے، مگر یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس مشن، اور اس تحریک کو اس منزل تک پہنچا دیں گے؛ اس موضوع پر یہ کتاب سنگ میل ثابت ہوگی، ایک دن وہ آئے گا جب جنت البقیع دوبارہ تعمیر ہوگی اور یہ کتاب وہاں رکھی جائے گی اور اس کتاب نے ماضی میں لکھنے والوں کو بھی حیات نو بخشی ہے ۔
اجراء کے موقع پر مولانا عادل فراز نقوی نے کہا کہ قابلِ مبارکباد ہیں مولانا جلال حیدر صاحب کہ جنہوں نے یہ عظیم علمی اور تحقیقی کارنامہ انجام دیا ہے؛ یہ کتاب تحریکِ جنت البقیع کے حوالے سے ایک قوی آواز ہے جو بلند ہوئی ہے اس بارے میں انہدام جنت البقیع کے فوراً بعد تمام عالم اسلام خصوصاً ہندوستان سے نہایت سخت رد عمل سامنے آیا، لیکن زمانے کے گزرنے کے ساتھ وہ آوازیں کم رنگ ہوتی چلی گئیں؛ مگر ایک بار پھر اس کتاب کے ذریعے اس تحریک کو ایک نیا رنگ ملے گا۔
کتاب کا تعارف کرواتے ہوئے مولانا جلال حیدر نقوی نے کہا کہ گزشتہ سالوں میں انہدام جنت البقیع کے موقع پر بہت سے خصوصی شمارے شائع ہوتے رہے ہیں، مگر ضرورت تھی کہ جنت البقیع کے سو سال مکمل ہونے پر سو سال کی تاریخ کو مختصر ہی صحیح مگر مستند طور پر کسی ایک کتاب میں جمع کیا جائے؛ ہم نے اس سلسلے میں کام کیا اور ہمیں یہ کامیابی حاصل ہوئی۔
۱۹۲۵ سے ۲۰۲۵ تک انہدام جنت البقیع کی جو ایک سو سالہ داستان غم ہے، اس کا کسی ایک مجموعہ میں سمیٹنا بہت دشوار کام تھا مگر خدا کا شکر ہے کہ یہ کام انجام پایا؛ اس کتاب میں ہم نے دور حاضر اور زمانہ قدیم کے اہم قلم کاروں کی کاوشوں کو بھی شامل کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں اس موقع پر مولانا عادل فراز صاحب، مولانا سجاد ربانی صاحب اور مولانا طالب حسین صاحب اور نور ہدایت فاؤنڈیشن لکھنؤ کا بہت شکر گزار ہوں کہ جن کی مدد اس کتاب کی تکمیل میں قدم قدم پر مجھے کامیابی حاصل ہوتی رہی؛ میں تمام علمائے کرام کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
یہ تقریب آل انڈیا شیعہ کونسل کے زیرِ اہتمام منعقد ہوئی، جس میں علمائے کرام سمیت مؤمنین نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔









آپ کا تبصرہ