جمعرات 15 مئی 2025 - 16:14
اسماعیلیہ فرقے کے کیا عقائد ہیں؟

حوزہ/ اسماعیلیہ فرقہ، امام جعفر صادق علیہ السلام کے بیٹے اسماعیل بن جعفر کی امامت پر عقیدہ رکھنے والا ایک معروف شیعہ فرقہ ہے، جو شریعت کے باطنی مفہوم پر یقین رکھتا ہے۔ وہ عالمِ ظاہر و باطن، امامت کی چار مراتب (مقیم، اساس، مستقر، مستودع) اور آیات و روایات کی تاویل کے قائل ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی | اسماعیلیہ تشیع کی ایک ایسی شاخ ہے جو پُر نشیب و فراز تاریخ اور مخصوص عقائد کی حامل ہے۔ یہ فرقہ دینی متون کی منفرد تاویلات اور امامت کے بارے میں جداگانہ نظریے کی بنا پر ہمیشہ محققین کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔

سوال:

اسماعیلیہ فرقہ کے عقائد کیا ہیں؟

جواب:

اسماعیلیہ، شیعہ کے معروف فرقوں میں سے ایک ہے۔ اس فرقے کی تاریخ نشیب و فراز سے بھرپور ہے، اسی لیے اس کے عقائد اور تاریخی تبدیلیوں پر تحقیق ہمیشہ محققین اور فرقہ شناسوں کی توجہ کا مرکز رہی ہے۔

اسماعیلیہ کے بنیادی عقائد:

1. اسماعیلیہ کے نزدیک، حضرت اسماعیل امام جعفر صادق علیہ السلام کے سب سے بڑے بیٹے اور امام ہیں، وہ ان کی موت کا انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ زندہ اور غائب ہیں اور ایک دن ظہور کریں گے۔

2. خداوند متعال نے "کن" (ہو جا) کے ذریعے دو عالم پیدا کیے:

الف) عالم باطن: جو عالم امر و غیب ہے، اس میں عقلیں، نفوس، ارواح اور کلی حقائق شامل ہیں۔

ب) عالم ظاہر: جو عالم خلق و شہادت ہے، اس میں اعلیٰ و ادنیٰ اجزاء، فلکی و عنصری اجسام شامل ہیں۔ اس عالم کے سب سے بڑے موجودات بالترتیب عرش، کرسی اور دیگر اجسام ہیں۔ اس بنا پر سلسلۂ ہستی کا آغاز و انجام خدا ہے۔

3. ذاتِ باری تعالیٰ عقل، فکر اور وہم سے بالاتر ہے۔ اللہ تعالیٰ صفات کی حدود سے ماورا ہے۔ نہ سلبی اور نہ ایجابی کسی بھی صفت کے ذریعے اس کے بارے میں بات نہیں کی جا سکتی۔

4. وہ عقلِ کل اور نفسِ کل کو دو اصل (بنیادیں) کہتے ہیں اور ان گاہے دونوں کو "اصل اول" اور "اصل ثانی" کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

5. وہ جسمانی جنت و دوزخ کے قائل نہیں لیکن ابتدائی سطح پر عوام کے لیے ان الفاظ کو معمول کے معنوں میں بیان کرتے ہیں۔ وہ حلول اور تناسخ کے قائل تھے۔ ان کے نزدیک جنت عقل ہے اور اس کے دروازے کی چابی رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گفتار ہے۔

6. ان کی ظاہری تعلیمات شیعہ اثنا عشری کے عقائد سے زیادہ مختلف نہیں جیسے نماز، روزہ، زکات وغیرہ۔

7. اس عالم وجود میں عقلِ کل کا مظہر ناطق ہے۔ ناطق وہی اولوالعزم انبیاء ہیں جن کی تعداد سات ہے۔ ہر نبی کا ایک وصی ہوتا ہے جو اس کی حیات میں اس کے علم سے فیض یاب ہوتا ہے۔ ہر ناطق کے بعد سات امام آتے ہیں۔ ہر پیغمبر کا دور ہزار سال پر مشتمل ہوتا ہے اور اس کے بعد ایک اور نبی اور نئی شریعت آتی ہے جو سابقہ شریعت کو منسوخ کرتی ہے۔

8. زمین پر ایک ناطق ہوتا ہے جو صاحبِ شریعت نبی ہے یعنی ایسا نبی جس پر فرشتے کے ذریعے الٰہی قانون نازل ہوتا ہے۔ نبوت کے ادوار سات ہوتے ہیں، ہر دور ایک ناطق اور ایک وصی سے شروع ہوتا ہے، پھر سات سات امام آتے ہیں اور پھر امامِ قائم یا امامِ قیامت کے ذریعے یہ دور مکمل ہوتا ہے، اسے امام مقیم کہتے ہیں۔

9. ان کے نزدیک امام عالمِ امر کا مظہر ہے اور اس کی حجت عقلِ اول (عقل کل) کا مظہر ہوتی ہے۔ امام باطن پر حاکم اور معلم ہوتا ہے۔ امام اگرچہ کبھی مخفی ہو سکتا ہے لیکن اس کی دعوت ظاہر رہتی ہے تاکہ حجت تمام ہو جائے۔ وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ زمین پر ہمیشہ بارہ نقیب موجود ہوتے ہیں جو حجت کے خاص اصحاب ہوتے ہیں۔

10. ایک ایسا امام ہوتا ہے جو امام اساس کا وارث ہوتا ہے، اس کا کام ظاہر و باطن کے درمیان توازن قائم رکھنا ہوتا ہے کیونکہ ان دونوں کا ربط ضروری ہے۔

اسماعیلیہ کے نزدیک امامت کی چار مراتب:

1. امام مقیم: وہ نبی ناطق کو برانگیختہ کرتا ہے، اور یہ امامت کی اعلیٰ ترین منزل ہے، اسے "رب الوقت" بھی کہا جاتا ہے۔

2. امام اساس: وہ نبی کا وصی، رازدار اور مددگار ہوتا ہے اور اسی کی نسل میں امام مستقر آتے ہیں۔

3. امام مستقر: وہ امام ہوتا ہے جو اپنے بعد کے امام کو معین کرتا ہے۔ اس کے تعین کی دو صورتیں ہیں: وراثت یا امام کا نص۔

4. امام مستودع: وہ امام مستقر کی نیابت میں امورِ امامت انجام دیتا ہے لیکن اپنے بعد امام معین کرنے کا حق نہیں رکھتا، اسے نائب الامام بھی کہتے ہیں۔

اسماعیلیوں کے عقائد میں ایک اہم خصوصیت "باطن گرائی" اور "تاویل" ہے۔ ان کے مطابق تمام شرائعِ الٰہی کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہوتا ہے اور صرف امام اور اس کے جانشین باطن سے آشنا ہوتے ہیں۔ ان کے نزدیک شرعی احکام مثلًا نماز، تیمم، زکات اور حج سب رموز اور علامات ہیں جن کا ایک باطنی مفہوم ہے۔ انہی تاویلات کی وجہ سے علماء اسلام نے اسماعیلیہ کو عقائدِ اسلامی کے لیے خطرہ قرار دیا۔

مرحوم شہید استاد مطہری اس بارے میں کہتے ہیں:

"اسماعیلیہ نے اسلامی افکار میں اس قدر باطنی خیالات کی بنیاد پر تصرف کیا ہے کہ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اسلام کو بالکل الٹ پلٹ دیا ہے۔"

وہ آیاتِ قرآنی، احادیث اور احکامِ شرعی کی تاویل کرتے ہیں اور ظاہر کو ناقص یا بے معنی سمجھ کر باطن کی طرف رجوع کرتے ہیں۔

مزید مطالعہ کے لیے منابع:

1. فرق الشیعہ، تألیف نوبختی، ابی محمد الحسن بن موسی۔

2. سیری در تاریخ شیعہ، تألیف داوود الهامی۔

3. ملل و نحل، تألیف ابوالفتح محمد بن عبدالکریم شهرستانی۔

ماخذ: مرکز مطالعات و پاسخ‌گویی به شبهات (حوزہ‌های علمیہ)

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha