جمعرات 3 اپریل 2025 - 21:33
مسلمانوں کے عقائد میں انتشار اور اس کا راہ حل

حوزہ/ مسلمانوں کے عقائد میں انتشار ایک سنگین مسئلہ ہے، مگر اس کا حل صرف اجتماعی طور پر تعاون، علمی محنت، اور صحیح فکری رہنمائی سے ممکن ہے۔ مسلمانوں کو اپنے عقائد کی حفاظت کے لیے نہ صرف اپنی داخلی صفوں میں اتحاد قائم کرنا ہوگا، بلکہ انہیں عالمی سطح پر بھی اپنے اصولوں کی اہمیت اور سچائی کو واضح کرنا ہوگا۔

تحریر: مولانا علی عباس حمیدی

حوزہ نیوز ایجنسی | مسلمانوں کے عقائد میں انتشار ایک پیچیدہ اور حساس مسئلہ ہے جو مختلف عوامل کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ انتشار مذہبی، فکری، ثقافتی، سیاسی، اور سماجی سطح پر ظاہر ہوتا ہے۔ انتشار کے اس دور میں مسلمانوں کو اپنے عقائد، شناخت، اور اسلامی اقدار کی حفاظت کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔

مسلمانوں کے عقائد میں انتشار کے اسباب:

1. مذہبی فرقہ واریت: مسلمانوں میں مختلف فرقے اور مسالک جیسے سنی، شیعہ، دیوبندی، بریلوی، اور دیگر گروہ موجود ہیں۔ اگرچہ تمام مسلمانوں کا ایمان ایک ہی اللہ، قرآن اور پیغمبرِ اسلام پر ہے، پھر بھی فرقہ واریت کی وجہ سے عقائد میں اختلافات پیدا ہو گئے ہیں۔ یہ اختلافات بعض اوقات شدت اختیار کر لیتے ہیں اور آپس میں انتشار کا باعث بنتے ہیں۔

2. مغربی ثقافت اور افکار کا اثر: مغربی تہذیب اور اس کے افکار، جیسے سیکولر ازم، لبرل ازم، اور فردی آزادی، نے مسلمانوں کی دینی شناخت پر سوالات اٹھانے شروع کر دیے ہیں۔ بہت سے نوجوان مسلمان ان نظریات سے متاثر ہو کر اپنے عقائد میں شک پیدا کرنے لگے ہیں، جو کہ عقائد میں انتشار کا سبب بنتا ہے۔

3. تعلیمی اور فکری انحطاط: مسلمانوں کے تعلیمی اداروں میں مناسب دینی تعلیم کی کمی اور جدید تعلیم کے اثرات کی وجہ سے بہت سے افراد اپنی مذہبی بنیادوں سے دور ہو گئے ہیں۔ اس کے نتیجے میں فکری انتشار پیدا ہوتا ہے اور لوگ اپنے عقائد کے بارے میں مختلف خیالات میں الجھ جاتے ہیں۔

4. معلومات کی غلط ترسیل: سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کی وجہ سے معلومات کا پھیلاؤ بہت بڑھ گیا ہے۔ لیکن اس میں درست اور غلط معلومات کی تفریق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ کئی مواقع پر غلط معلومات اور پروپیگنڈے کی بنیاد پر مسلمانوں کے عقائد اور اصولوں پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں، جس سے ان کے اندر عقائد کے بارے میں ابہام پیدا ہوتا ہے۔

5. سیاسی بحران اور اختلافات: مسلمانوں کے مختلف ممالک میں سیاسی بحران اور جنگوں کی وجہ سے بھی عقائد میں انتشار کا سامنا ہوتا ہے۔ جب مسلمانوں کے درمیان سیاسی یا فوجی اختلافات ہوتے ہیں، تو یہ عقائد میں بھی اختلافات کو جنم دیتے ہیں اور ایک دوسرے کے عقائد کو نظرانداز کرنے یا ان پر حملہ کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔

انتشار کا حل:

1. علمی اور فکری تربیت: مسلمانوں کو اپنے عقائد کی صحیح اور گہری سمجھ حاصل کرنے کے لیے تعلیم اور تربیت کی ضرورت ہے۔ دینی مدارس اور یونیورسٹیوں میں اسلامی عقائد کی صحیح تعلیم دی جانی چاہیے تاکہ لوگ اپنے ایمان کے بارے میں مکمل آگاہی حاصل کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم کے ساتھ دین کی تعلیم کو ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نوجوانوں میں توازن قائم ہو۔

2. فرقہ واریت کا خاتمہ: مسلمانوں کو فرقہ واریت کی بجائے اپنے مشترکہ عقائد اور مقصد پر توجہ دینی چاہیے۔ تمام مسلمانوں کو اپنے اختلافات کو کم کرنے اور اپنی مشترکہ شناخت پر فخر کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے علماء اور دینی رہنماؤں کو آگے آ کر اتحاد کی کوششیں کرنی چاہییں۔

3. مذہبی برداشت اور احترام: مسلمانوں میں آپس میں مذہبی برداشت اور احترام کو فروغ دینا ضروری ہے۔ ہر فرد کو اپنے عقائد پر ایمان لانے کا حق ہونا چاہیے، لیکن وہ دوسرے کے عقائد کی بھی عزت کرے۔ یہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ کوئی گروہ دوسرے کے عقائد کی توہین نہ کرے اور تمام مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ بھائی چارے کے ساتھ رہیں۔

4. سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر آگاہی: سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کا استعمال بہتر طریقے سے کیا جا سکتا ہے تاکہ لوگوں کو صحیح معلومات فراہم کی جائیں۔ پروپیگنڈے، غلط معلومات اور افواہوں کو روکنے کے لیے اسلامی اداروں اور تنظیموں کو آن لائن پلیٹ فارمز پر اپنی موجودگی مضبوط کرنی چاہیے۔

5. سیاسی و سماجی یکجہتی: مسلمانوں کو اپنے سیاسی اختلافات کو نظرانداز کر کے ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر آنا چاہیے۔ سیاسی طور پر مضبوط اور متحد مسلمان معاشرہ ہی اپنے عقائد کی بہتر حفاظت کر سکتا ہے اور دنیا بھر میں اپنے حقوق کا دفاع کر سکتا ہے۔

6. علماء کی رہنمائی: علماء کو اپنے فہم اور علم کی بنیاد پر لوگوں کی رہنمائی کرنی چاہیے تاکہ مسلمان اپنے عقائد کے بارے میں پختہ اور صحیح رائے قائم کر سکیں۔ مختلف فرقوں اور مکاتب فکر کے درمیان محبت اور احترام کا ماحول پیدا کرنا ضروری ہے تاکہ وہ مل جل کر ایک مضبوط امت کی صورت میں رہ سکیں۔

الملخص

مسلمانوں کے عقائد میں انتشار ایک سنگین مسئلہ ہے، مگر اس کا حل صرف اجتماعی طور پر تعاون، علمی محنت، اور صحیح فکری رہنمائی سے ممکن ہے۔ مسلمانوں کو اپنے عقائد کی حفاظت کے لیے نہ صرف اپنی داخلی صفوں میں اتحاد قائم کرنا ہوگا، بلکہ انہیں عالمی سطح پر بھی اپنے اصولوں کی اہمیت اور سچائی کو واضح کرنا ہوگا۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha