حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجتالاسلام علی خلیلپور نے خبرگزاری "حوزه" سے گفتگو کرتے ہوئے عیدِ غدیر کی مبارکباد دی اور اس بات پر زور دیا کہ حضرت علیؑ کی بلند و بالا شخصیت کو قرآن اور احادیث کی روشنی میں پہچاننا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ "انسان کامل" وہ ہستی ہے جو اللہ تعالیٰ کی صفات کا مکمل آئینہ دار ہوتا ہے، اور صرف ایک کامل انسان ہی دوسرے کامل انسان کی حقیقت کو مکمل طور پر سمجھ سکتا ہے۔ لہٰذا عام لوگ حضرت علیؑ کی حقیقی معرفت اور ان کی وسیع صفات کو مکمل طور پر نہیں سمجھ سکتے۔
نجات کا واحد راستہ: قرآن اور اہل بیتؑ سے وابستگی
انہوں نے مشہور حدیثِ "ثقلین" کا حوالہ دیا، جس میں رسول اکرمﷺ نے فرمایا:"میں تمہارے درمیان دو قیمتی چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، اگر تم ان دونوں سے وابستہ رہو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے؛ ایک اللہ کی کتاب (قرآن) اور دوسرا میری عترت (اہل بیتؑ)۔ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوضِ کوثر پر میرے پاس پہنچیں۔"
خلیلپور نے کہا کہ جو شخص بندگی، ترقی اور ہدایت کا راستہ اختیار کرنا چاہتا ہے، اُسے قرآن اور اہل بیتؑ دونوں سے وابستہ رہنا چاہیے تاکہ کمال تک پہنچنے کا راستہ زیادہ یقینی اور ہموار ہو۔
قرآنِ ناطق اور قرآنِ صامت: ہدایت کے دو جدا نہ ہونے والے سرچشمے
انہوں نے قرآن اور اہل بیتؑ کے درمیان تعلق کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ دونوں آپس میں جدا نہیں، بلکہ ایک دوسرے کی تفسیر اور تکمیل ہیں۔ قرآن دو پہلو رکھتا ہے:
1. قرآنِ صامت (خاموش قرآن) — یعنی یہی کتاب قرآن،
2. قرآنِ ناطق (بولتا ہوا قرآن) — یعنی اہل بیتؑ، خصوصاً حضرت علیؑ۔
اہل بیتؑ، خاص طور پر امام علیؑ، قرآن کے زندہ اور بولنے والے نمونے ہیں، جو قرآنِ صامت کی تشریح کرتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت علیؑ فرماتے ہیں: "یہ قرآن ہے، اس سے کہو کہ بولے، وہ خود تو نہیں بولے گا، لیکن میں تمہیں اس کی باتیں بتا رہا ہوں۔ جان لو کہ اس میں آئندہ کی خبریں، ماضی کے واقعات، تمہارے امراض کی دوا اور تمہارے درمیان کے معاملات کو منظم کرنے کے اصول موجود ہیں۔"
یعنی، اہل بیتؑ کی روشنی کے بغیر قرآن کی گہرائیوں تک رسائی ممکن نہیں۔
قرآن اور امیرالمؤمنینؑ کی معرفت کے لیے باطنی پاکیزگی ضروری
انہوں نے قرآن کریم کی آیت «لَا یَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ» (سورہ واقعہ، آیت 79) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جس طرح قرآن کی حقیقی معرفت صرف "پاکیزہ" لوگوں کو حاصل ہو سکتی ہے، اسی طرح حضرت علیؑ کی حقیقی شناخت بھی صرف وہی لوگ حاصل کر سکتے ہیں جو باطنی طور پر پاکیزگی کے مقام پر فائز ہوں۔ یعنی جو شخص خود "مطہَّر" نہ ہو، وہ نہ قرآن کو سمجھ سکتا ہے، نہ حضرت علیؑ کی حقیقت کو۔
امیرالمؤمنینؑ معرفت کا ایک لامحدود سمندر ہیں۔
حجتالاسلام خلیلپور نے امام علیؑ کی اس تعبیر کا ذکر کیا کہ قرآن ایک بے پایاں سمندر ہے۔ انہوں نے مزید کہا: "خود حضرت علیؑ بھی ایک ایسا بحرِ بیکراں ہیں، جس کی گہرائیوں کو سمجھنا ممکن نہیں۔" جیسا کہ شاعروں نے کہا:
> "کتابِ فضل تو را آبِ بحر کافی نیست،
کہ تر کنم سرِ انگشت و صفحہ بشمارم!"
یعنی آپؑ کی فضیلت اتنی عظیم ہے کہ اگر پورا سمندر سیاہی بن جائے تب بھی آپؑ کے کمالات کو لکھنے کے لیے کافی نہ ہوگا۔
قرآن کریم، ایک ایسی شفا جو صرف دوا نہیں
حجتالاسلام خلیلپور نے قرآن کریم کی آیات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ قرآن مجید کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اسے کئی مقامات پر "شفا" یعنی روحانی و معنوی شفا کے طور پر معرفی کیا گیا ہے۔ جیسا کہ قرآن فرماتا ہے:
"اور ہم قرآن میں وہ کچھ نازل کرتے ہیں جو ایمان والوں کے لیے شفا اور رحمت ہے"
یعنی قرآن صرف علاج یا دوا نہیں بلکہ بلندترین درجے کی شفا ہے جو دلوں، روحوں اور معاشروں کو سنوارتا ہے۔
اہل بیت(ع)؛ شفا اور رحمت کا عملی مظہر
انہوں نے یہ بات اہل بیتؑ، خاص طور پر حضرت علیؑ پر منطبق کرتے ہوئے فرمایا کہ جیسے قرآن شفا ہے، ویسے ہی اہل بیتؑ کی ذات بھی شفا اور رحمت ہے۔ حضرت علیؑ کا وجودِ مبارک خود شفا دینے والا ہے۔
انسانی عقل کی محدودیت اور حضرت علیؑ کی عظمت
آگے چل کر انہوں نے کہا کہ حضرت علیؑ کی ذات اتنی بلند اور نورانی ہے کہ دنیا کے نیک ترین لوگ بھی اُن کی حقیقت کو مکمل طور پر سمجھنے سے قاصر ہیں، کجا یہ کہ عام لوگ یا وہ جو معرفت سے خالی ہوں، اُن کی ذات کو پہچان سکیں۔
گمراہی کے شکار لوگ؛ علیؑ کو غلط پہچاننے والے
انہوں نے تاریخ میں پائے جانے والے بعض گمراہ فرقوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بہت سے لوگ، خواہ وہ خود حضرت علیؑ کے زمانے میں ہوں یا بعد میں، اُن کی شخصیت کو صرف ظاہری اقوال و واقعات سے جاننا چاہتے تھے۔ لیکن بصیرت و معرفت کے بغیر ایسی شناخت ادھوری اور گمراہ کن ہے۔ ہمیں ایسے سطحی اور ظاہربین لوگوں سے بچنا چاہیے۔
دو تباہ کن گروہ
انہوں نے حضرت علیؑ کی مشہور حدیث کا حوالہ دیا: "میرے بارے میں دو گروہ ہلاک ہوئے: ایک حد سے بڑھا ہوا محبت کرنے والا اور دوسرا دشمنی میں اندھا ہونے والا"۔
یعنی ایک وہ جو غلو کرتا ہے اور علیؑ کو خدا کا درجہ دیتا ہے، اور دوسرا وہ جو بغض و کینہ رکھتا ہے۔ ایسے افراد علیؑ کی حقیقت کو کبھی نہیں پہچان سکتے۔
امیرالمومنینؑ؛ اسلامی عقائد کا زندہ نمونہ
خلیلپور نے کہا کہ حضرت علیؑ کو پہچاننے کے لیے ضروری ہے کہ ہم انہیں اسلامی عقائد یعنی توحید، نبوت، معاد، عدل اور امامت کی روشنی میں دیکھیں، کیونکہ علیؑ ان تمام اصولوں کے حقیقی مظہر اور نمایندہ ہیں۔
علیؑ کی توحید شناسی
انہوں نے کہا کہ حضرت علیؑ نے توحید کے معرفتی سفر میں بلندترین مقام حاصل کیا۔ ایک شخص نے ان سے پوچھا: "کیا آپ اُس خدا کو دیکھتے ہیں جس کی عبادت کرتے ہیں؟"
تو حضرت نے فرمایا: "میں اس خدا کی عبادت نہیں کرتا جسے نہ دیکھ سکوں"
یہ دیکھنا ظاہر کی آنکھ سے نہیں، بلکہ ایمان و معرفت کی آنکھ سے ہوتا ہے۔
معاد پر یقینِ کامل
حضرت علیؑ فرماتے ہیں: "اگر قیامت کے تمام پردے ہٹا دیے جائیں تب بھی میرے یقین میں کوئی اضافہ نہ ہوگا"
یعنی آپ کا یقین اس قدر بلند اور محکم ہے کہ گویا وہ قیامت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔
نبوت کے مقام میں علیؑ کی شراکت
نبی اکرمؐ نے حضرت علیؑ سے فرمایا: "اے علی! تم وہی سنتے ہو جو میں سنتا ہوں، اور وہی دیکھتے ہو جو میں دیکھتا ہوں؛ فرق صرف یہ ہے کہ تم نبی نہیں ہو، بلکہ میرے وزیر ہو اور خیر کی راہ پر ہو"
یہ بات حضرت علیؑ کی علمی و روحانی عظمت کو ظاہر کرتی ہے۔
عدل علوی؛ عدلِ الٰہی کا آئینہ
حضرت علیؑ عدل الٰہی کے عملی نمونہ ہیں۔ ان کی ذاتی زندگی، حکومت، سیاست اور معیشت سب میں عدل نمایاں ہے۔ خواہ اپنے بھائی عقیل کا مسئلہ ہو یا رشوت کے طور پر دی گئی مٹھائی کو رد کرنا، یا پرانے جوتے مرمت کر کے پہننا، سب اُن کی عملی عدالت کا ثبوت ہیں۔
امامت و ولایت؛ دین کی روح
آخر میں حجتالاسلام خلیلپور نے کہا: "امامتِ علیؑ دین کی اصل بنیاد ہے اور قرآن کی روح ہے"
خدا ہمیں توفیق دے کہ ہم حضرت علیؑ کے راستے پر چلیں اور اُن کے سچے شیعہ بن سکیں۔









آپ کا تبصرہ