ہفتہ 26 اپریل 2025 - 11:19
اولاد کے والدین پر حقوق میں سے ایک اولاد کے درمیان عدل و انصاف ہے

حوزہ/ حجۃالاسلام مولانا سید نقی مہدی زیدی نے تاراگڑھ اجمیر ہندوستان میں نمازِ جمعہ کے خطبوں میں نمازیوں کو تقوائے الٰہی کی نصیحت کے بعد امام حسن عسکری علیہ السلام کے وصیت نامہ کی شرح و تفسیر کی اور اولاد کے حقوق کے حوالے سے کہا کہ والدین کو چاہیے کہ وہ اولاد کے درمیان عدل و انصاف سے کام لیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجۃالاسلام مولانا سید نقی مہدی زیدی نے تاراگڑھ اجمیر ہندوستان میں نمازِ جمعہ کے خطبوں میں نمازیوں کو تقوائے الٰہی کی نصیحت کے بعد امام حسن عسکری علیہ السلام کے وصیت نامہ کی شرح و تفسیر کی اور اولاد کے حقوق کے حوالے سے کہا کہ والدین کو چاہیے کہ وہ اولاد کے درمیان عدل و انصاف سے کام لیں؛ رسول خدا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا: "اِعدِلوا بَينَ أولادِكُم في النُّحْلِ، كما تُحِبُّونَ أن يَعدِلوا بَينَكُم في البِرِّ واللُّطفِ،" ہدیئے اور بخشش میں اولاد کے درمیان عدل سے کام لو جس طرح تم اس بات کو پسند کرتے ہو کہ وہ تمہارے درمیان نیکی اور مہربانی کے بارے میں عدل سے کام لیں۔ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:"أبصَرَ رسولُ الله رجُلاً لَهُ وَلَدانِ فقَبَّلَ أحَدَهُما وتَرَكَ الآخَرَ ، فقالَ صلیٰ علیہ وآلہ وسلَّم: فَهَلاّ واسَيتَ بَينَهُما ؟!"، حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے ایک شخص کو دیکھا کہ اس کے دو بیٹے تھے اس نے ایک کو تو بوسہ دیا، لیکن دوسرے کو نہیں دیا۔ آپ صلیٰ اللّہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا: تونے دونوں کے درمیان مساوات سے کام کیوں نہیں لیا؟۔

امام جمعہ تاراگڑھ نے کہا کہ: حقوق اولاد میں سے ایک اہم ترین حق اولاد کی تعلیم و تربیت ہے، والدین کو چاہیئے کہ وہ اپنی اولاد کو ہر ممکن طریقے سے اصول و فروع دین سے آگاہ کریں، خصوصاً تلاوت قرآن مجید اور حفظ قرآن مجید کی ترغیب دیں، آداب و اخلاق شرعی سکھانے میں غفلت نہ کریں، اگرچہ سختی بھی کرنا پڑے، البتہ اس سختی میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے مراتب کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، چنانچہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا:"خَيرُ مَـا وَرّثَ الآبـاءُ الأَبنَـاءَ الأَدَبُ"، جو بہترین چیز والدین اولاد کو وراثت میں دیتے ہیں وہ ادب ہے۔ رسول خدا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا:"أكرِمُوا أولادَكُم وأحْسِنوا آدابَهُم يُغْفَرْ لَكُم"، اپنی اولاد کی عزت کرو اور ان کے آداب کو بہتر بناؤ تاکہ تمھارے گناہ معاف کئے جائیں۔ حضرت امام علی علیہ السلام نے اپنے فرزند امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام سے فرمایا:"إنّما قَلْبُ الحَدَثِ كالأرضِ الخالِيةِ ما اُلقِيَ فيها مِنْ شيءٍ قَبِلَتْهُ ، فبادَرْتُكَ بالأدبِ قبلَ أن يَقْسُوَ قلبُكَ ويَشتغِلَ لُبّكَ"، نوجوان کا دل خالی زمین کی مانند ہوتا ہے جو کچھ اس میں ڈالا جائے اسے قبول کر لیتا ہے لہٰذا تمھارا دل پختہ ہونے اور تمھاری عقل کے مستقل ہونے سے پہلے ہی میں تمھیں ادب کی باتیں بتانے میں جلدی کی ہے ، امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایا:"لمّا نَزَلتْ : يا أيُّها الّذينَ آمَنوا قُوا أنفسَكُم وأهليكُم نارا قالَ النّاسُ : يا رسول الله ! كيفَ نَقِي أنفسَنا وَأهلِينا ؟ قالَ : اعمَلُوا الخيرَ وذَكِّروا بهِ أهْلِيكُم وأدِّبُوهُم على طاعةِ الله"، جب آیت يا أيُّها الّذينَ آمَنوا قُوا أنفسَكُم وأهليكُم نارا اے صاحبان ایمان تم خود کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم سے بچاؤ نازل ہوئی تو لوگوں نے پوچھا :ہم خود کو اور اپنے اہل کو کیسے بچائیں "فرمایا"خود نیک عمل کرو اور اپنے اہل وعیال کو اس کی ہدایت کرو اور انھیں اطاعت خدا وندی پر مبنی ادب کی تعلیم دیتے رہو، امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا: "مُرِ الصَّبيَّ فلْيَتَصدَّقْ بيدِهِ بالكِسْرةِ والقَبْضةِ والشَّيءِ وإنْ قَلَّ، فإنَّ كلَّ شيءٍ يُرادُ بهِ اللهُ وإنْ قَلَّ بعدَ أنْ تَصدُقَ النِّيّةُ فيهِ عظيم"، اپنے بچے کو حکم دو کہ وہ اپنے ہاتھ سے روٹی کا ٹکڑا یا مٹھی بھر اناج یا کوئی اور چیز خواہ وہ قلیل مقدار میں ہی ہو صدقہ دیا کرو کیو نکہ جو چیز راہ خدا میں دی جائے اور نیت بھی صادق ہو تو وہ قلیل بھی عظیم ہوتی ہے۔

مولانا نقی مھدی زیدی نے کہا کہ: اولاد سے محبت کرنے کے بارے میں بھی بہت سی روایات موجود ہیں۔ اس وقت ان میں سے چند ایک تبرکاً ذکر کی کر رہا ہوں، پیغمبر اکرم صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ہے کہ اپنی اولاد سے محبت کیا کرو، ان پر رحم کیا کرو، جب ان سے کوئی وعدہ کرو تو اسے ضرور پورا کرو چونکہ اولاد کی نظرِ امید صرف ماں باپ پر ہوتی ہے وعدہ وفا نہ ہونے کی صورت میں بد دلی پیدا ہو جاتی ہے۔ آخر کار توقعات کے رشتے منقطع ہو جاتے ہیں۔ بے شک خداوند عالم اتنا کسی چیز سے غضب ناک نہیں ہوتا جتنا عورتوں اور بچوں کی دل شکنی سے ہوتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ: اولاد کو آداب سکھانے کا طریقہ بھی احادیث و روایات میں بیان ہوا ہے چنانچہ رسول خدا صلیٰ اللّہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا:"علِّموا أولادَكُمُ الصَّلاةَ إذا بَلَغوا سَبْعا، واضرِبُوهُمْ علَيها إذا بَلَغوا عَشْرا، وفَرِّقوا بينَهُم في المَضاجِعِ"، اپنی اولاد کو جب وہ سات سال کو پہنچ جائیں تو نماز کی تعلیم دو جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو انہیں سزا دو اور ان کے بستر علیٰحدہ کردو، آنحضرت صلیٰ اللّہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا:"الوَلدُ سَيّدٌ سبعَ سنينَ، وعبدٌ سبعَ سنينَ، ووزيرٌ سبعَ سنينَ، فإنْ رَضِيتَ أخلاقَهُ لإحدى وعشرينَ، وإلاّ فَاضْرِبْ على جَنبِهِ، فقد أعْذَرتَ إلى الله تعالى، بیٹا پہلے سات سال تک سردار ہوتا ہے دوسرے سات سال تک غلام ہوتا ہے اور تیسرے سات سال تک وزیر (ہاتھ بٹانے والا) اگر ان اکیس سال میں تم اس کی عادات سے راضی ہو تو بہتر ورنہ اس کے دونوں پہلوؤں پر ضرب لگائی جائے کیونکہ اس طرح سے تم اللہ تعالیٰ کے نزدیک معذور ہوگے، امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایا :"يُؤدَّبُ الصَّبيُّ على الصَّومِ مَا بَينَ خَمْسَ عَشْرَةَ سَنةً إلىٰ سِتَّ عَشرَةَ سَنَةً"، پندرہ سے سولہ سال کی عمر کے بچے کو روزہ رکھنا سکھاؤ۔

خطیب جمعہ تاراگڑھ نےکہا کہ: تربیت اولاد کے سلسلہ کثرت سے روایات موجود ہیں رسول خدا صلیٰ اللّہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا:"أكرِموا أولادَكُم وأحسِنوا آدابَهُـم"، اپنی اولاد کی عزت کرو اور ان کے آداب کو بہتر بناؤ۔ دوسرے موقع پر آپ صلیٰ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا:"أدِّبوا أولادَكُم على ع لاثِ خِصالٍ حُبِّ نَبيِّكُم، وحُبِّ أهلِ بَيتِهِ، وقِراءةِ القرآنِ"۔

اپنی اولاد کی تین باتوں پر تربیت کرو۔

۱۔ پیغمبر صلیٰ اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کی محبت پر

۲۔ پیغمبر صلیٰ اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کے اہلِ بیت علیہم السلام کی محبت پر

۳۔ قرآن کی تلاوت پر۔

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:" مُرُوا أولادَكُم بطَلَبِ العِلم"،اپنی اولاد کو حصول علم کا حکم دو۔ ایک دوسری حدیث میں آپ علیہ السلام نے فرمایا:"عَلِّموا صِبيانَكُمُ الصَّلاةَ ، وخُذوهُم بها إذا بَلَغوا الحُلم"، اپنی اولاد کو نماز کی تعلیم دو اور جب وہ بالغ ہوجائے تو اس پر اس کا مؤاخذہ کرو۔

امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایا:"الغُلامُ يَلعَبُ سَبعَ سِنينَ ، ويَتَعَلَّمُ الكِتابَ سَبعَ سِنينَ، ويَتَعَلَّمُ الحَلالَ والحَرامَ سَبعَ سِنينَ"، بچہ پہلے سات سال تک کھیلتا رہتا ہے۔ دوسرے سات سال لکھنا (پڑھنا) سیکھتا ہے۔ اور تیسرے سات سال میں حلال اور حرام کی تعلیم حاصل کرتا ہے،ایک دوسری حدیث میں امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:" أدَّبَني أبي عليه السلام بثلاثٍ ... قالَ لي: يا بُنيَّ مَن يَصْحَبْ صاحبَ السَّوْءِ لا يَسْلمْ ، ومَن لا يُقيِّدْ ألفاظَهُ يَنْدَمْ ، ومَن يدخُلْ مَداخِلَ السُّوءِ يُتَّهم"، مجھے میرے والد نے تین باتیں ادب کی سکھائی ہیں... مجھ سے فرما یاکہ

۱۔ جو شخص بروں کی صحبت اختیار کرے گا کبھی محفوظ نہیں رہے گا

٢۔ جو شخص اپنے الفاظ کو قابو میں نہیں رکھے گا پشیمان ہوگا

۳۔ اور جو شخص برے مقامات پر قدم رکھے گا متّہم کیا جائے گا۔

مولانا نقی مھدی زیدی نے کہا کہ: رسول خدا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا ہے کہ "أحِبُّوا الصِّبيانَ وارحَموهُم"، اپنے بچوں سے پیار کیا کرو اور ان پر رحم کیا کرو، امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ہے کہ"إنّ اللہَ عز و جل لَيَرحَمُ العَبدَ لِشِدَّةِ حُبهِ لِوَلَدِهِ"، اللّہ انسان پر اس کے بچے کے ساتھ شدید محبت کی وجہ سے رحم فرمائے گا، اصول کافی میں روایت ہے کہ ایک شخص نے پیغمبر اکرم صلیٰ اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کی مجلس میں کہا کہ "رجُلٍ قالَ : ما قَبَّلتُ صَبِيّا قَطُّ، فَلَمّا ولّٰی: هذا رجُلٌ عِندي أ نّهُ مِن أهلِ النّارِ"، ایک شخص نے کہا کہ: میں نے اپنے بچے کو کبھی بوسہ نہیں دیا۔ جب وہ چلا گیا تو آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا میرے نزدیک یہ شخص جہنمی ہے۔

امام جمعہ تاراگڑھ نے کہا کہ: بچوں کے لیے بچے بن جاؤ رسول اکرم صلیٰ اللّہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا کہ: "مَن كانَ عِندَهُ صَبِيٌّ فلْيَتَصابَ لَهُ"، جس کے ہاں کوئی بچہ ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اس کے ساتھ بچہ بن جائے۔ جناب جابر کہتے ہیں کہ میں حضور اکرم صلیٰ اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا " دَخَلتُ علَى النَّبيِّ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلّم والحَسَنُ والحُسَينُ عليهما السلام على ظَهرِهِ وهُو يَجثو لَهُما ويَقولُ: نِعمَ الجَمَلُ جَمَلُكُما، ونِعمَ العِدلانِ أنتُما"، کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلّم گھٹنوں کے بل چل رہے ہیں اور حسنین کریمین علیہما السلام آپ کی پشت پر سوار ہیں اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلّم ان سے فرمارہے ہیں: بہترین اونٹ تمہارا اونٹ ہے اور ٍبہترین سوار تم دونوں ہو۔

انہوں نے مزید کہا کہ: شفقت سے بچوں کو چومنے تک ثواب رکھا گیا ہے آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ارشاد ہے "جس نے اپنے بچے کو پیار کیا تو اس کے نامہٴ اعمال میں ایک حسنہ درج ہوتا ہے"۔

ایک اور حدیث میں ہے کہ بچوں کے ہر ایک بوسے پر بہشت کا ایک درجہ بڑھا دیا جاتا ہے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے یہ بھی فرمایا کہ "جب باپ اولاد کے چہرے پر شفقت و محبت سے نگاہ ڈالتا ہے اور خوش حال ہوتا ہے تو ایک بندہ راہ خدا میں آزاد کرنے کا ثواب اس کے نامہٴ اعمال میں لکھا جاتا ہے"۔

مولانا نقی مھدی زیدی نے پہلگام کے واقعہ پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ: یہ دین امن و امان اور صلح و آشتی کا پیغام دینے والا دین ہے، اسلام میں قتل و بربریت اور دہشت گردی کی کوئی گنجائش نہیں ہے، قرآن مجید میں اسلام کا صاف اور واضح اعلان موجود ہے کہ جس نے ایک انسان کو بے جرم و خطا قتل کیا گویا اس نے سارے انسانوں کو قتل کیا، اسلامی لباس پہن کر وادی کشمیر میں جو بے خطا بے گناہ سیاحوں کو قتل کرکے دشمنان دین نے اسلام کی شبیہ کو مخدوش کرنے کی کوشش کی ہے وہ ہر اعتبار سے قابل مذمت اور ناقابل معافی جرم ہے۔

ہم اس مجرمانہ اقدام اور ان بے گناہ سیاحوں کے قتل کی مذمت کرتے ہیں اور حکومت ہندوستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ظالموں کو ان کے کیفر کردار جلد از جلد پہنچایا جائے۔ اس سانحہ میں قتل اور زخمی ہونے والوں کے ساتھ تعزیت اور ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں، زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا کرتے ہوئے ہیں دہشت گردوں کی پرزور مذمت کرتے ہوئے۔ امید کرتے ہیں کہ ملک کی حفاظتی و انتظامی ایجنسیاں اور ادارے حملے کے اسباب و علل اور دہشت گردوں کے تعلق سے مکمل معلومات فراہم کرنے کے بعد قوم کو صحیح صورت حال سے آگاہ کریں گے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha