منگل 18 نومبر 2025 - 06:00
جس نے بھی اپنے والدین کو رنجیدہ کیا، اس نے اپنے آپ کو عاقِ والدین بنا لیا

حوزہ/ حضرت آیت اللہ جوادی آملی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حضرت علی علیہ السلام کو وصیت میں والدین اور اولاد کے حقوق گنواتے ہوئے فرمایا: جو بھی اپنے والدین کو رنجیدہ کرے، اس نے اپنے آپ کو عاق والدین بنا لیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حضرت آیت اللہ جوادی آملی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حضرت علی علیہ السلام کو وصیت کے ایک حصہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے والدین اور اولاد کے باہمی حقوق کے بارے میں فرمایا:

والد کے اولاد پر حقوق:

1. والد اپنی اولاد کا اچھا اور نیک نام رکھے: "یا علی! حق الولد علی والده أن یحسن اسمه" (اے علی! باپ پر بیٹے کا حق یہ ہے کہ وہ اس کا اچھا نام رکھے)۔

2. اس کی اچھی تربیت کرے: "و أدبه" (اور اسے ادب سکھائے)۔

3. زندگی کے تمام انفرادی اور اجتماعی معاملات میں اسے اس کے مناسب مقام پر رکھے: "و یضعه موضعاً صالحاً" (اور اسے مناسب مقام پر رکھے)۔

اولاد کے والدین پر حقوق:

1. اولاد اپنے باپ کو اس کے نام سے نہ پکارے: "و حق الوالد علی ولده أن لا یسمیه باسمه" (اور باپ کا بیٹے پر حق ہے کہ وہ اسے نام سے نہ پکارے)۔

2. باپ کے آگے آگے نہ چلے: "و لا یمشی بین یدیه" (اور اس کے آگے آگے نہ چلے)۔

3. اس سے آگے نہ بیٹھے: "و لا یجلس أمامه" (اور اس سے آگے (پشت کر کے) نہ بیٹھے)۔

والدین کے لیے تنبیہ:

اے علی! خدا لعنت کرے اس ماں باپ پر جو اپنی اولاد کو اپنی نافرمانی کی طرف مائل کریں: "یا علی! لعن الله والدین حملا ولدهما على عقوقهما"۔

باہمی ذمہ داری:

اے علی! جو مصیبت اور عذاب عاقِ والدین ہونے کی وجہ سے اولاد کو پہنچتا ہے، وہی والدین کو عاقِ اولاد ہونے کی وجہ سے پہنچتا ہے: "یا علی! یلزم الوالدین من عقوق ولدهما یلزم الولد لهما من عقوقهما"۔

والدین کے لیے رحمت:

اے علی! خدا رحمت نازل فرمائے اس ماں باپ پر جو اپنی اولاد کو اپنی نیکی اور اپنی رضامندی کی طرف مائل کریں: "یا علی! رحم الله والدین حملا ولدهما على بر بهما"۔

اہم نتیجہ:

اے علی! جو بھی اپنے والدین کو رنجیدہ کرے، اس نے اپنے آپ کو عاقِ والدین بنا لیا: "یا علی! من أحزن والدیه فقد عقّهما"۔

تنبیہ:

اس حدیث میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے، وہ والدین اور اولاد کے باہمی حقوق کا صرف ایک حصہ ہے، باقی حصے دوسری روایات میں بیان ہوئے ہیں۔

[بحوالہ: وسائل الشیعہ، جلد 21، صفحہ 389 / کتاب ادب فنای مقربان، جلد 3، صفحات 208-209]

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha