ہفتہ 12 اپریل 2025 - 09:00
اولاد کی تعلیم و تربیت؛ والدین پر فرض، مولانا سید نقی مہدی زیدی

حوزہ/امام جمعہ تاراگڑھ اجمیر نے خطبۂ جمعہ دیتے ہوئے والدین کے اولاد پر اور اولاد کے والدین پر حقوق بیان کرتے ہوئے کہا کہ اولاد کی تعلیم و تربیت؛ والدین پر فرض ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجۃالاسلام مولانا سید نقی مہدی زیدی نے تاراگڑھ اجمیر میں نمازِ جمعہ کے خطبے میں نمازیوں کو تقوائے الٰہی کی نصیحت کے بعد امام حسن عسکری علیہ السلام کے وصیت نامہ کی شرح و تفسیر کی اور اولاد کے حقوق کے حوالے سے بیان کرتے ہوئے کہا کہ امام زین العابدین علیہ السلام نے اولاد کے حقوق کے بارے میں فرمایا "وأمّا حقّ ولدك فتعلم أنّه منك، ومضافٌ إليك، في عاجل الدنيا بخيره وشرّه، وأنّك مسؤولٌ عمّا وليته من حسن الأدب، والدلالة على ربّه، والمعونة له على طاعته فيك وفي نفسه، فمثاب على ذلك ومعاقبٌ على الإساءة اليه"، اور تم پر تمہاری اولاد کا حق یہ ہے کہ تم جان لو کہ وہ تم سے ہے اور اس دنیا کی نیکی اور بدی میں تم سے پیوستہ ہے اور تم خدا کے حکم کے مطابق، اس پر اپنی ولایت کے پیش نظر، اس کی عمدہ پرورش کرنے، نیک آداب سکھانے اور خدائے عزوجل کی طرف راہنمائی کرنے اور خدا کی فرمانبرداری میں اس کی مدد کرنے میں اپنے حوالے سے بھی اور اس کے حوالے سے بھی، جوابدہ ہو؛ اور اس ذمہ داری کے عوض جزا اور سزا پاؤگے۔ جیسا کہ حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام نے اپنے بیٹے امام حسن علیہ السلام سے فرمایا تھا : "فإنّي رأيتك بعضي بل كلّي" بے شک میں تمہیں اپنی ذات کا جزء، بلکہ کل ذات سمجھتا ہوں۔

انہوں نے مزید کہا کہ امام زین العابدین علیہ السلام نے اولاد کے حقوق کے متعلق جو نکات بیان فرمائے ہیں وہ یہ ہیں:

١۔ باپ کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ اولاد اسی کی ہے اور دنیا و آخرت میں اس کا خیر و شر بھی اس سے منسوب ہوتا ہے۔

٢۔ اولاد کی تعلیم تربیت اور خدا کی طرف اس کی رہنمائی کرنے کی ذمہ داری بھی والدین پر عائد ہوتی ہے۔

٣۔ اولاد کے عمل کے آثار سے غفلت نہیں برتنا چاہیے، کیونکہ اس کی نیکی کا ثواب اور اس کی بدکاری کا عذاب ملے گا۔

٤۔ اولاد کے کمال و ترقی کے لیے اتنی کوشش کرنی چاہیے کہ جس سے خدا کی بارگاہ میں عذر قابلِ قبول ہوجائے۔

امام جمعہ تاراگڑھ نے کہا کہ جس طرح والدین کا ادب و احترام بجا لانا اور ان کے ساتھ احسان کرنا اولاد پر واجب ہے، اسی طرح والدین کے ذمے بھی اولاد کے کچھ حقوق عائد ہوتے ہیں۔ ان حقوق کی رعایت کرنا ماں باپ پر واجب ہے۔اگر خیال نہ کریں تو گویا صلہٴ رحم منقطع کیا کیونکہ انسان کے لیے ماں باپ کے بعد قریب ترین ارحام اولاد ہیں جبکہ قطعِ رحم بہت بڑا گناہ ہے۔ جس طرح اولاد والدین کے حقوق کی رعایت نہ کرنے پر عقوق جیسے گناہ سے دوچار ہوتی ہے، اسی طرح والدین بھی اولاد کے حقوق ادا نہ کرنے پر عاق جیسی مشکلات و مسائل سے رو برو ہوتے ہیں، لہٰذا والدین کو چاہیئے کہ وہ اولاد کے حقوق کا خیال رکھیں ان کو ادا کریں، والدین اولاد کو کسی ناقابل برداشت کام کرنے کو مامور نہ کریں۔ بصورت ِ دیگر اولاد اس بارِگراں سے بچنے کے لیے بہانے تلاش کرے گی، جس کے نتیجے میں وہ عاق ہو سکتی ہے۔ اولاد کے کردار و گفتار پر تادیبی و تعمیری تنقیدکی جائے اگر ان پر بار بار اعتراض کئے جائیں اور ڈانٹ ڈپٹ کرتے رہیں تو یہ عمل رفتہ رفتہ والدین کے ادب و احترام کے ترک کا نتیجہ ہو سکتا ہے اور اس سے ایک دوسرے کے درمیان نفرت بھی پیدا ہو سکتی ہے اور آخر میں عاق کی نوبت پہنچ سکتی ہے۔ اسی طرح اولاد کے ساتھ محبت ترک کرنے سے ردعمل کے طور پر اولاد بھی ماں باپ سے پیار و محبت کرنا چھوڑ دیتے ہیں جس سے دونوں گناہِ کبیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اسی لئے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے ارشاد فرمایا: "یلْزِمُ الْوَالِدَیْنَ مِنَ الْعُقُوْقِ مَایَلْزِمُ الْوَالَدُ مِنْ عُقُوْقِھِمَا" والدین کا عاق ہونا لازم آتا ہے جس طرح اولاد والدین کے حقوق ادا نہ کرنے پر عقوق میں مبتلا ہوتی ہے۔ اسی بناء پر والدین کا فریضہ ہے کہ اپنی اولاد کو ادب و احترام سے تعلیم و ترغیب دیں اور ان کی تربیت کے وسائل فراہم کریں۔ نیز ان کو شفقت و مہربانی سے قابو میں رکھیں اور عاق ہونے کے اسباب سے باز رکھنے کی کوشش کریں۔مثلاً معمولی خطا و لغزش سے تجاہل عارفانہ کے طور پر چشم پوشی کیا کریں۔ ان کے ناچیز احسان اور معمولی اطاعت کو قبول کر کے شکریہ ادا کریں۔ ان کے سامنے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے دعائیں دیں۔

مولانا نقی مہدی زیدی نے کہا کہ علمائے عظام نے فقہی کتابوں میں ماں باپ پر اولاد کے حقوق کے بارے میں تفصیل سے مسائل بیان کیے ہیں۔ ان کا خلاصہ اس طرح یہاں ذکر کریں گے کہ ہم اپنے موضوع سے ہٹ نہ سکیں۔

١ ۔ نفقہ باپ پر واجب ہے، اولاد کی پیدائش سے لے کے رُشد(عقل و ہوش سنبھالنے اور نفع نقصان کی تمیز کرنے) تک نیز برسرِ روزگار ہونے سے خودکفیل ہونے تک خوراک و لباس اور رہائش وغیرہ کا انتظام باپ پر واجب ہے۔ اولاد کے بھی شوہر کے گھر پہنچنے یا خود کفیل ہونے تک اخراجات باپ کے ذمے ہیں۔

٢۔ اولاد کی شادی کے لیے کوشش کرنا، والد پر عائد ہونے والے حقوق میں سے ایک اہم حق یہ ہے کہ جب لڑکا بالغ و رشید ہوجائے تو اس کی شادی کی کوشش کی جائے۔ اگر لڑکی ہو تو اسے شوہر کے گھر پہنچائے۔ والدین لڑکی کو خاوند اختیار کرنے سے روک نہیں سکتے۔ چنانچہ قرآن مجید میں واضح ارشاد ہوتا ہے: "فلَا تَعْضُلُوْ ھُنَّ اَنْ تَنکحِنَ اَزْوَاجَھُنَّ اِذَا تَّرَاضَوبِیْنَھُمْ بِالْمَعْرْوُفِ"، انہیں اپنے شوہروں کے ساتھ نکاح کرنے سے نہ روکو، جب آپس میں دونوں میاں بیوی شریعت کے مطابق اچھی طرح مل جل جائیں۔

خطیب جمعہ تاراگڑھ نے کہا کہ اسلامی تعلیمات نے بچوں کی حفاظت و نگہداشت پر بہت تاکید کی ہے، دین اسلام نے بچوں کے حقوق کے سلسلے میں خصوصی ہدایات دی ہیں، ان ہدایات پر نظر ڈالنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ حقوق دو طرح کے ہیں حقوق کی ایک قسم وہ ہے جن کی ادائیگی لازم اور ضروری ہے اور ان سے کوتاہی کرنا موجب سزا ہے جن کو آئینی حقوق کہا جاتا ہے۔ دوسری قسم وہ ہے جن کا ادا کرنا پسندیدہ ہے اور ان سے کوتاہی کی صورت میں اخلاقی و معاشرتی سزا تو ملتی ہے لیکن قانونی گرفت نہیں ہوتی انہیں ہم اخلاقی حقوق کا عنوان دے سکتے ہیں۔

مولانا نقی مہدی زیدی نے کہا کہ آئینی حقوق یعنی اسلام نے اولاد کے معاملے کو صرف والدین کی خوشنودی پر ہی نہیں چھوڑا اور نہ ہی معاشرے کے رویے پر انحصار کیا ہے، بلکہ بچوں کو قانونی تحفظ فراہم کیا ہے اور ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے غلط رویہ کو قابل سزا قرار دیا ہے اسلام نے پہلے دن سے ہی بچوں کے حقوق کے بارے میں واضح موقف اختیار کیا ہے اور یہ اس عظیم اصلاح کا حصہ ہے جسے اسلام نے معاشروں کی تشکیل میں اختیار کیا ہے۔ آئینی حقوق میں ان حقوق کے بارے میں اسلامی تعلیمات پائی جاتی ہیں۔ حق حیات ،حق پرورش ،حق تربیت ،حق میراث ، حق نکاح۔

امام جمعہ تاراگڑھ نے مزید کہا کہ بچے کا سب سے پہلا آئینی حق یہ ہے کہ جو بچہ جنم لیتا ہے اس کی زندگی کو محفوظ بنایا جائے، چونکہ وہ اپنی حفاظت نہیں کر سکتا اس لئے والدین اور معاشرے کی ذمہ داری ہے کہ اس کی زندگی کو یقینی بنائیں بعض انسانی معاشروں میں اولاد کو قتل کر دیا جاتا تھا معاشی تنگی کی وجہ سے یا مذہبی عقیدے کی بنا پر انہیں معبودوں کے لیے قربان کر دیا جاتا تھا قرآن و سنت نے قتل اولاد کو قانونی جرم قرار دیا ہے چاہے معاشی عوامل کی وجہ سے ہو یا مذہبی عقیدے کی بنا پر بعض عرب قبائل میں لڑکیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا قرآن نے اسے بھی ممنوع قرار دیا معاشی مذہبی اور قبائلی عصبیت کی بنا پر ہونے والے قتل اولاد کی تینوں نوعیتوں کو ممنوع قرار دیا ہے۔

مولانا نقی مہدی زیدی نے کہا کہ خداوند عالم نے اس کائنات میں انسان کے لیے بے پناہ وسائل حیات رکھے ہیں اور اسے حکم دیا ہے کہ محنت اور جدوجہد سے ان وسائل سے استفادہ کرے اور ان سے دنیاوی زندگی کو مزین کرے بعض انسانوں کے ظالمانہ رویوں کے باعث وسائل حیات پر چند لوگوں کا قبضہ ہو جاتا ہے اور لوگوں کو وسائل حیات سے کم حصہ ملتا ہے اس لئے بعض اوقات وہ معاشی تنگی کی وجہ سے قتل اولاد جیسے جرم کا ارتکاب کرتے ہیں قرآن و سنت نے معاشی وجوہ کی بنا پر قتل اولاد کو شدت سے منع کیا ہے چنانچہ سورہ اسراء آیت ٣١ میں ارشاد خداوندی ہے "وَ لَا تَقۡتُلُوۡۤا اَوۡلَادَکُمۡ خَشۡیَۃَ اِمۡلَاقٍ ؕ نَحۡنُ نَرۡزُقُہُمۡ وَ اِیَّاکُمۡ ؕ اِنَّ قَتۡلَہُمۡ کَانَ خِطۡاً کَبِیۡرًا" اور تم اپنی اولاد کو تنگ دستی کے خوف سے قتل نہ کیا کرو، ہم انہیں رزق دیں گے اور تمہیں بھی، ان کا قتل یقینا بہت بڑا گناہ ہے، سورہ انعام آیت ١٥١ میں ارشاد ہوا "قُلۡ تَعَالَوۡا اَتۡلُ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمۡ عَلَیۡکُمۡ اَلَّا تُشۡرِکُوۡا بِہٖ شَیۡئًا وَّ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا ۚ وَ لَا تَقۡتُلُوۡۤا اَوۡلَادَکُمۡ مِّنۡ اِمۡلَاقٍ ؕ نَحۡنُ نَرۡزُقُکُمۡ وَ اِیَّاہُمۡ ۚ وَ لَا تَقۡرَبُوا الۡفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنۡہَا وَ مَا بَطَنَ ۚ وَ لَا تَقۡتُلُوا النَّفۡسَ الَّتِیۡ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالۡحَقِّ ؕ ذٰلِکُمۡ وَصّٰکُمۡ بِہٖ لَعَلَّکُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ"، کہدیجئے: آؤ میں تمہیں وہ چیزیں بتا دوں جو تمہارے رب نے تم پر حرام کر دی ہیں، (وہ یہ کہ) تم لوگ کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ اور والدین پر احسان کرو اور مفلسی کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو، ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور انہیں بھی اور علانیہ اور پوشیدہ (کسی طور پر بھی) بے حیائی کے قریب نہ جاؤ اور جس جان کے قتل کو اللہ نے حرام کیا ہے اسے قتل نہ کرو ہاں مگر حق کے ساتھ، یہ وہ باتیں ہیں جن کی وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم عقل سے کام لو۔

انہوں نے مزید کہا کہ قحط و افلاس کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو۔ قدیم جاہلیت ہی نہیں، آج کی جدید جاہلیت بھی اس قتل کا جواز خوف افلاس بتاتی ہے۔ اگرچہ جدید مادیت کی جاہلیت نے قتل اولاد کو مانع حمل، اسقاط حمل وغیرہ جیسے عنوان سے رائج کیا ہے لیکن اسقاط حمل، وہی قتل اولاد ہے اور اس قتل کا محرک قدیم و جدید جاہلیت میں ایک ہی ہے، وہ ہے خوف افلاس۔

خطیب جمعہ تاراگڑھ نے کہا کہ مشرکانہ کلچر میں دیوی دیوتاؤں کی نظر میں اولاد کی قربانی کی جاتی تھی بعض مشرکانہ معاشروں میں بھی یہ رسم باقی ہے قرآن مجید اس قبیح رسم کی مذمت کرتا ہے اسلامی تعلیمات نے اس رسم کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا قرآن مجید اس رسم پر تبصرہ کرتے ہوئے سورہ انعام آیت ١٤٠ میں بیان کرتا ہے: "قَدۡ خَسِرَ الَّذِیۡنَ قَتَلُوۡۤا اَوۡلَادَہُمۡ سَفَہًۢا بِغَیۡرِ عِلۡمٍ وَّ حَرَّمُوۡا مَا رَزَقَہُمُ اللّٰہُ افۡتِرَآءً عَلَی اللّٰہِ ؕ قَدۡ ضَلُّوۡا وَ مَا کَانُوۡا مُہۡتَدِیۡن"، وہ لوگ یقینا خسارے میں ہیں جنہوں نے بیوقوفی سے جہالت کی بنا پر اپنی اولاد کو قتل کیا اور اللہ نے جو رزق انہیں عطا کیا ہے اللہ پر بہتان باندھتے ہوئے اسے حرام کر دیا، بیشک یہ لوگ گمراہ ہو گئے اور ہدایت پانے والے نہ تھے۔ سورہ انعام آیت ١٣٧ میں ارشاد خداوندی ہے "وَ کَذٰلِکَ زَیَّنَ لِکَثِیۡرٍ مِّنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ قَتۡلَ اَوۡلَادِہِمۡ شُرَکَآؤُہُمۡ لِیُرۡدُوۡہُمۡ وَ لِیَلۡبِسُوۡا عَلَیۡہِمۡ دِیۡنَہُمۡ ؕ وَ لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ مَا فَعَلُوۡہُ فَذَرۡہُمۡ وَ مَا یَفۡتَرُوۡنَ" اور اسی طرح ان کے شریکوں نے اکثر مشرکوں کی نظر میں ان ہی کے بچوں کے قتل کو ایک اچھے عمل کے طور پر جلوہ گر کیا ہے تاکہ انہیں ہلاکت میں ڈال دیں اور ان کے دین کو ان پر مشتبہ بنا دیں اور اگر اللہ چاہتا تو وہ ایسا نہ کر سکتے پس آپ انہیں بہتان تراشی میں چھوڑ دیں۔

امام جمعہ تاراگڑھ نے کہا کہ کئی معاشروں میں لڑکیوں کو پیدائش کے فوراً بعد قتل کر دیا جاتا تھا عربوں میں بعض قبائل ایسے تھے جو لڑکیوں کو زندہ درگور کر دیتے قبائلی معاشروں میں بالعموم لڑکی کو ایک بوجھ سمجھا جاتا چونکہ شادی کے بعد اسے کسی دوسرے قبیلے کا خاندان میں جانا ہوتا ہے اس لیے وہ قبیلہ اور خاندان کے لیے معاون ثابت ہونے کے بجائے بوجھ سمجھی جاتی تھی اس نام نہاد ترقی یافتہ دور میں بھی لڑکیاں جہیز وغیرہ کی وجہ سے قتل ہو رہی ہیں اور بعض عورتیں اسکیننگ کے بعد یہ معلوم کر کے کہ اس کے ہاں لڑکی پیدا ہو رہی ہے اسقاط کرا دیتی ہیں لڑکی معاشی بوجھ اور معاشرتی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے اس لیے اس سے نجات کے راستے تلاش کئے جاتے ہیں بعض عربوں کے ہاں یہ عقیدہ تھا کہ فرشتے خدا کی بیٹیاں ہیں اور ان کی سفارش سے مشکلات حل ہوتی ہیں دوسری طرف وہ انہی بیٹیوں سے نجات حاصل کرتے یا انہیں شدید دباؤ میں رکھتے قران مجید نے ان کے اس رویے پر تبصرہ کرتے ہوئے سورہ نحل آیت ٥٨ میں کہا کہ: "وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُہُمۡ بِالۡاُنۡثٰی ظَلَّ وَجۡہُہٗ مُسۡوَدًّا وَّ ہُوَ کَظِیۡمٌ یَتَوَارٰی مِنَ الۡقَوۡمِ مِنۡ سُوۡٓءِ مَا بُشِّرَ بِہٖ ؕ اَیُمۡسِکُہٗ عَلٰی ہُوۡنٍ اَمۡ یَدُسُّہٗ فِی التُّرَابِ ؕ اَلَا سَآءَ مَا یَحۡکُمُوۡنَ"، اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی خبر دی جاتی ہے تو مارے غصے کے اس کا منہ سیاہ ہو جاتا ہے، اس بری خبر کی وجہ سے وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے (اور سوچتا ہے) کیا اسے ذلت کے ساتھ زندہ رہنے دے یا اسے زیر خاک دبا دے؟ دیکھو! کتنا برا فیصلہ ہے جو یہ کر رہے ہیں؟ سورہ زخرف آیت ١٧ میں ارشاد ہوا کہ "وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُہُمۡ بِمَا ضَرَبَ لِلرَّحۡمٰنِ مَثَلًا ظَلَّ وَجۡہُہٗ مُسۡوَدًّا وَّ ہُوَ کَظِیۡمٌ" ۔ حالانکہ جب ان میں سے کسی ایک کو بھی اس (بیٹی) کا مژدہ سنایا جاتا ہے جو اس نے خدائے رحمن کی طرف منسوب کی تھی تو اندر ہی اندر غصے سے پیچ و تاب کھا کر اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے۔

مولانا نقی مہدی زیدی نے کہا کہ قرآنی آیات کی روشنی میں یہ بات اخذ کی جاسکتی ہے کہ: اولاد کے قتل کو شرک کے عقیدہ نے خوشنما بنا دیا یا شریک سے مراد بتوں کے مجاورین ہوں تو ان لوگوں نے اولاد کے قتل کو ایک احسن عمل کرکے دکھایا۔ چنانچہ عرب جاہلیت کے زمانے میں قتل اولاد کی تین صورتیں رائج تھیں:

١۔ بچوں کو بتوں کی خوشنودی کے لیے قربان کرنا۔

٢۔لڑکیوں کا زندہ درگور کرنا کہ لڑائیوں میں دشمن کے ہاتھ اسیر نہ بن جائیں یا کسی اور وجہ سے باعث عار و ننگ نہ بن جائیں۔

٣۔ قحط و افلاس کی وجہ سے بھی بچوں کو قتل کر دیتے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ قرآن و سنت نے ان تینوں قسم کے قتل کو ممنوع قرار دیا اور اولاد جیسی نعمت کو پہچاننے کا سلیقہ سکھایا اس قتل کو قانونی طور پر جرم قرار دیا اور اولاد خداوند عالم کا عطیہ ہے اور اسے کسی طرح بھی ختم کرنا درست نہیں ہے اولاد خدا کی رحمت کا مظہر ہے اور اس سے نوع انسانی اور نسل انسانی کی بقا ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha