منگل 29 اپریل 2025 - 21:18
پہلگام سانحہ؛ مذہب کے نام پر یہ پہلا حملہ نہیں

حوزہ/ کشمیر کے پہلگام میں جس طرح بے گناہ سیاحوں کا قتل عام کیا گیا وہ قابلِ مذمت ہے۔دہشت گرد ہمیشہ مذہب کے نام پر بے گناہوں کا قتل کرتے آئے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے، کیونکہ دہشت گردی اور بے گناہوں کو مارنا ہی ان کا اصل مذہب ہے، یہ صور ت حال پوری دنیا میں کار فرما ہے، لیکن دہشت گردی پر دنیا کا دُہرا معیار اس کے پھلنے پھولنے کا سبب بنا ہے۔

تحریر: عادل فراز

حوزہ نیوز ایجنسی|

کشمیر کے پہلگام میں جس طرح بے گناہ سیاحوں کا قتل عام کیا گیا وہ قابلِ مذمت ہے۔دہشت گرد ہمیشہ مذہب کے نام پر بے گناہوں کا قتل کرتے آئے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے، کیونکہ دہشت گردی اور بے گناہوں کو مارنا ہی ان کا اصل مذہب ہے، یہ صور ت حال پوری دنیا میں کار فرما ہے، لیکن دہشت گردی پر دنیا کا دُہرا معیار اس کے پھلنے پھولنے کا سبب بنا ہے۔

اگر نام نہاد مسلمان تنظیمیں قتل عام کرتی ہیں تو اس کو ’اسلامی دہشت گردی‘ سے تعبیر کیاجاتاہے ۔دنیا میں بڑھتاہواسلاموفوبیااس کی بنیادی وجہ ہے جس کے پیچھے استعماری طاقتوں کامنصوبہ بند کھیل ہے ۔دنیا جس ’اسلامی دہشت گردی‘ کی بات کررہی ہے اس کو توامریکہ نے ہی جنم دیاہے جس کا اعتراف امریکی عہدیدار وقتاًفوقتاًکرتے رہے ہیں ۔لیکن جو امریکہ اپنے حلیف ممالک کے ساتھ دنیا بھرمیں کررہاہے اس دہشت گردی کو کس زمرے میں رکھاجائے گا؟افغانستان اور عراق کو ایک پروپیگنڈے کے تحت برباد کردیاگیاجس میں ہزاروں بے گناہوں کا قتل عام ہوا،کیا وہ دہشت گردی نہیں تھی؟یا اسرائیل جو کچھ غزہ میں کررہاہے وہ دہشت گردی نہیں ہے ؟ ہمیں معلوم ہے اس سوال کا جواب نہ تو امریکہ دے سکتاہے اور نہ ہندوستان کی فاشسٹ طاقتیں ۔کیونکہ انہیں معلوم ہے دنیا میں دہشت گردی سے بڑی کوئی تجارت نہیں جس کی زمام امریکہ کے ہاتھ میں ہے ۔

پہلگام حملے کے بعد میڈیا نے ہمیشہ کی طرح نفرت انگیزی کا راستہ اپنایا ۔ پہلے یہ پروپیگنڈہ کیاگیاکہ دہشت گردوں نے سیاحوں کا مذہب پوچھ کر گولی ماری،جب کہ حقیقت اس کے برعکس تھی ۔کیونکہ جہاں دوہزار سے زیادہ سیاح بیک وقت موجود ہوں وہاں ایک ایک کے مذہب کی تشخیص کرکے قتل کرنا اپنی موت کو دعوت دینے کے متراد ف تھا۔دوسری بات یہ کہ مرنے والوں میں بلاتفریق مذہب لوگ شامل ہیں ،اس لئے یہ نہیں کہاجاسکتاکہ پہلگام میں خاص طورپرہندو سیاحوں کو نشانہ بنایاگیا۔بالفرض یہ تسلیم بھی کرلیاجائے کہ دہشت گردوں نے ہندوئوں کو ان کے مذہب کی بناپر قتل کیاہے توکیا اس سے قتل کی سنگینی اور جرم کی نوعیت بدل جائے گی؟دہشت گردوں کی گولیوں کی زد میں جو لوگ آئے ان میں ہندوبھی شامل ہیں اور مسلمان بھی ۔جن کشمیریوں نے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر سیاحوں کی حفاظت کی اور انہیں وہاں سےنکالنے کے لئے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالا،ان کا مذہب کیاتھا؟ یقیناًہم ان کی اس مدد کو مذہب کی عینک سے نہیں دیکھ سکتے،کیونکہ یہ مدد انسانیت کے ناتے کی جارہی تھی ۔جتنے سیاح وہاں موجود تھے وہ کشمیر کے مہمان تھے جن کی حفاظت کی ذمہ داری حکومت کے ساتھ کشمیریوں پر بھی عائد ہوتی ہے ،اس بناپر کشمیریوں نے اپنا فرض بخوبی نبھایا۔میڈیا نے تو نفرت انگیزی کا وہی طریقہ اپنایاجو دہشت گرد اپنارہے تھے ۔ان کامقصد یہ تھاکہ ہندوستان میں ہندو- مسلم کے نام پر خانہ جنگی شروع کرادی جائے ،یہی میڈیا کی منشابھی نظر آرہی تھی ۔ہوناتویہ چاہیے تھاکہ میڈیا اس واقعے کے بعد مذہبی ہم آہنگی کی تقویت کے لئے جدوجہدکرتامگر اس نے دہشت گردی کو مذہب کی عینک سے دیکھنا شروع کردیا۔اس کافائدہ شدت پسندوں نے بخوبی اٹھایااور وہ سوشل میڈیا پر اسلحے کی نمائش کرکے مسلمانوں کو دھمکانے لگے کہ ہم چھبیس کےبدلے چھبیس سو ماریں گے ۔نفرت کا یہ کھیل پورے ملک میں کھیلاجائے گاکیونکہ شرپسندوں پر سرکار کوئی کاروائی نہیں کرتی ۔

سرکار اور میڈیا کو یقیناً یہ معلوم ہے کہ ہندوستان میں مذہبی منافرت کس درجہ عروج پر ہے ۔گزشتہ پندرہ سالوں میں میڈیا اور یرقانی تنظیموں نے صرف نفرت کو فروغ دیاہے ۔خواہ مغلوں کے نام پر ہندوئوں کے جذبات کو مشتعل کرناہویاپھر ’بٹوگے توکٹوگے ‘جیسے نعرے دے کر ووٹ حاصل کرنے کی کوشش ہو۔وزیر اعظم تو فسادیوں کو انکے کپڑوں سے پہچان لیتے ہیں مگر پہلگام میں گھسنے والے دہشت گردوں کوپہچاننے میں سرکار ی ایجنسیاں تک ناکام ہوگئیں۔ناکام سرکار اپنی جواب دہی طے کرنے کے بجائے میڈیاکو نفرت کا ایجنڈا تقسیم کرنے لگی ۔نتیجہ یہ ہواکہ پہلگام واقعہ کےفوراًبعد یہ بیانیہ تشکیل دیدیاگیاکہ ہندوئوں کو ان کا مذہب پوچھ کر قتل کیاگیا۔جب کہ پورے ہندوستان میں یہی صورت حال کارفرماہے ۔ہر طرف مذہب کے نام پر ماراجارہاہے جس پر سرکار قابو پانے میں ناکام رہی ہے ۔اگر ایک پولیس والا چلتی ٹرین میں مسافروں کا نام پوچھ کر یا ان کی داڑھی اور لباس کو دیکھ کر گولی ماردیتاہے توکیا یہ مذہبی منافرت کی دلیل نہیں ؟گئو رکشک گروہوں نے گائے کے نام پر مسلمانوں کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا،مگر کبھی یہ نہیں دکھلایاگیاکہ مذہب کے نام پر مسلمانوں کو ماراجارہاہے۔ہریانہ میں ناصر اور جنید کو زندہ جلادیاگیامگر اس واقعہ کے مجرموں کو ابھی تک سزانہیں ملی۔ بی جے پی لیڈروں نے اشتعال انگیز تقاریرکرکے دہلی کو نفرت کی آگ میں جھونک دیامگر اس کے ملزموں پر ایف آئی آر تک درج نہیں ہوئی ۔دھرم سنسدوں میں نام نہاد مذہبی رہنمائوں نے مسلمانوں کومارنے کے لئے ہندوئوں کومسلح ہونے کے لئے کہا،ان کے سوشل بائیکاٹ کی اپیلیں کی گئیں ،جس میں بی جے پی رہنمائوںنے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیاتھامگر پولیس تماشائی بنی رہی ۔جتندر سنگھ تیاگی (سابق وسیم رضوی)کے ذریعہ قرآن مجید پر حملے کرائے گئے اور کتاب خدامیں ترمیم کی تحریک چلائی گئی ۔پیغمبراسلامؐ کی زوجہ حضرت عائشہؓ کی اعلانیہ اہانت کی گئی اور ان کی زندگی پر فحش فلم بنانے کی کوشش کی گئی ۔ہندوستان میں کہاںمآب لنچنگ کے واقعات رونما نہیں ہوئے جن کے پیچھے مذہبی منافرت کارفرماتھی ۔مسلمانوں کے مذہبی تشخص پر اعلانیہ حملے ہوئے ۔اب تو یہ سلسلہ وقف املاک پرقانونی قبضےتک چلاآیاہے ؟ کیا یہ سب مذہب کے نام پر نہیں ہورہاہے،اس بارے میں کبھی میڈیا نے بات نہیں کی۔ہندوستان میں یرقانی تنظیمیں مسلسل امن کو نقصان پہونچارہی ہیں مگر ان کی حرکتوں سے سب آنکھیں موندے ہوئے ہیں۔مگر پہلگام میں ہوئے حملے کے بعدتمام نفرت کے سوداگروں کی نیند کھل گئی۔سب چیخنے لگے کہ ہندوئوں کو ان کے مذہب کی بناپر قتل کیاگیا۔توکیا دہشت گردوں نے اُن مسلمانوں کا بھی مذہب دریافت کیاتھاجو چھبیس مرنےوالوں میں شامل ہیں؟اگر وہ ہندوئوں کے قتل عام کے لئے آئے تھے توپھر کشمیری جوانوں نے اُن سے لوہاکیوں لیا؟حقیقت یہ ہے کہ کشمیری جوانوں اور واقعہ رونماہونے کے بعد سراپااحتجاج عوام نے نفرت کے سوداگروں کی حکمت عملی کو ناکام بنادیا۔

پہلگام حملے کے بعد میڈیا نے دنیا بھرکی باتیں کیں مگر کسی نے وزیر اعظم سے یہ سوال کرنے کی جرأت نہیں کی کہ آخر سیکورٹی میں سیندھ کیسے لگی؟دہشت گرد اُس مقام تک کیسے پہونچے ؟ان کے پاس اسلحہ کیسے اورکہاں سے آیا ؟ میڈیا کے مطابق دہشت گردوں کے پاس سے وہی اسلحہ برآمد ہواجو امریکی فوجی افغانستان میں چھوڑ کر گئے تھے ،توپھر یہ اسلحہ افغانستان سے کشمیر تک کیسے پہنچا؟اس بارے میں سرکار سے سوال کیوں نہیںپوچھے گئے؟اس واقعے کے بعد وزیر اعظم ،وزیر داخلہ اور وزیر دفاع کو پریس کانفرنس کے ذریعہ سوالات کا جواب دینا چاہیے تھامگرکل جماعتی میٹنگ طلب کرکے خانہ پُری کردی گئی ۔یوں بھی ہم وزیر اعظم سے پریس کانفرنس کی توقع نہیں کرسکتے کیونکہ وہ آج تک میڈیا سے روبرونہیں ہوئے ۔آخر انہیں ڈر کس بات کاہے ؟میڈیا تو بالآخرسرکار کا پالتوہے ،اس کے سوالات سے کیساگھبرانا؟یادوبارہ اکشے کمار کو بلاکر انٹرویو ریکارڈ کرادیاجاتاکہ وزیر اعظم نے پہلگام حملے کی جانچ کے لئے کیا مناسب اقدام کئے اور سیکورٹی میں چوک کیسے ہوئی ؟مگر وزیر اعظم کےپاس اس کی فرصت کہاں تھی ۔انہیں تو عوام سے زیادہ ووٹوں کی فکر ہے اس لئے وہ کشمیر نہ جاکر بہار کےدورے پر چلےگئے تاکہ آئندہ الیکشن کی تیاریوں کاجائزہ لیاجاسکے ۔یوں بھی وزیر اعظم آج تک منی پور نہیں گئے توپھر کشمیر جانے کا توسوال ہی نہیں اٹھتا۔پہلگام میں توصرف چھبیس لوگوں کو ماراگیاہے مگر منی پور میں توہزاروں لوگ مارے گئے ۔ہزاروں بے گھر ہوگئے ۔عورتوں کی عزتیں لوٹی گئیں ۔ہر طرف لاقانونیت کا راج ہے،سڑکوں پر وحشت کا ننگا ناچ ہے۔جب وزیر اعظم وہاں نہیں گئے توپھر پہلگام جاکر کیاکرتے !اس لئے وزیر اعظم سے سوال کے بجائے اپوزیشن سے سوال کیجیے کہ آخر پہلگام میں دہشت گردانہ واقعہ کیسے رونماہوا،امید ہے راہل گاندھی اسکا جواب ضرور دیں گے!اگر وہ بھی جواب نہ دے سکے تو جواہر لال نہروتو یقیناًجواب دیں گے!

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha