تحریر:ملک توفیق حسین
وادی کشمیر ایک بار پھر خون آلود ہوئی، جب پہلگام کے پُرامن سیاحتی مقام پر ایک دہشتگردانہ حملے میں 26 معصوم سیاحوں کی جانیں چلی گئیں۔ اس سانحہ نے نہ صرف اہل کشمیر کو سوگوار کیا، بلکہ پورے ملک میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی۔ اس حملے میں مارے جانے والوں میں مسلمان بھی شامل تھے، لیکن بدقسمتی سے ایک بار پھر اس واقعے کو مذہبی عینک سے دیکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے ایسا لگتا ہے کہ گودی میڈیا نے اس حملے کو ایک موقع سمجھا، تاکہ فرقہ واریت کو ہوا دی جا سکے اور سیاسی فائدہ اٹھایا جا سکے؛ باوجود اس کے کہ مقامی کشمیری عوام نے جان پر کھیل کر سیاحوں کو بچایا، اپنے گھروں کے دروازے کھول دئیے اور انسانی ہمدردی کی بے مثال مثال قائم کی — اس حقیقت کو میڈیا کے پردے میں چھپا دیا گیا، کشمیری عوام نے اس حملے کے خلاف سخت احتجاج کیا، کینڈل مارچ نکالے اور ہر سطح پر مذمت کی، لیکن یہ سب کچھ میڈیا کی نظر میں غیر اہم رہا۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا یہ حملہ کسی سیاسی منصوبے کا حصہ تھا؟ کیا بہار جیسے ریاستی انتخابات میں سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے اس واقعے کو استعمال کیا جا رہا ہے؟ کشمیری عوام اس حملے کی غیر جانبدارانہ اور شفاف تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں، تاکہ سچائی سامنے آئے ۔کشمیر کے نوجوان، خاص کر طالب علم، جو ہندوستان کے دیگر حصوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، اس واقعے کے بعد شدید عدم تحفظ کا شکار ہو گئے ہیں۔ دہلی سے سرینگر آنے والی فلائٹ میں سوار طلبا کی داستانیں چیخ چیخ کر کہہ رہی تھیں کہ انہیں ہراساں کیا گیا، دھمکیاں دی گئیں اور محض کشمیری ہونے کی سزا دی گئی۔ یہ سوال پوری شدت کے ساتھ اٹھایا جانا چاہئے کہ اگر "دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا" تو کشمیری مسلمانوں کو کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے؟ کیا ان کا جرم صرف اتنا ہے کہ انہوں نے انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کیا؟ کیا ان کی قربانیاں اس لائق نہیں کہ انہیں تسلیم کیا جائے؟یہ واضح ہو چکا ہے کہ میڈیا جو دکھاتا ہے وہ اکثر حقیقت کے برعکس ہوتا ہے۔
"ہے کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ، یہ بازیگر کھلا"
ہمیں اس مکروہ کھیل کو سمجھنے کی ضرورت ہے جس میں بے گناہوں کا خون بہایا جاتا ہے، اور پھر اسے مذہبی رنگ دے کر سیاسی عزائم کی تکمیل کی جاتی ہے۔ اسلام، جو ناحق پانی بہانے سے روکتا ہے، وہ کسی معصوم کی جان لینے کی اجازت کیسے دے سکتا ہے؟ہمیں فرقہ واریت کے زہر سے بچنا ہوگا، اور یہ جاننا ہوگا کہ ان حملوں کے پیچھے کون سے مقاصد کار فرما ہیں۔ گودی میڈیا کے جال میں پھنسنے کے بجائے، ہمیں اصل حقیقت تلاش کرنے کی کوشش کرنی ہوگی۔وقت آ گیا ہے کہ ہم حقیقت اور پروپیگنڈا کے بیچ فرق پہچانیں۔ فرقہ واریت کا بیانیہ جتنا مؤثر ہو سکتا ہے، اتنا ہی خطرناک بھی ہے۔ پہلگام کا سانحہ صرف ایک حملہ نہیں، یہ ہمارے ضمیر، میڈیا اور سیاست کی آزمائش ہے۔
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔









آپ کا تبصرہ