اتوار 23 مارچ 2025 - 13:26
مدرسہ جعفریہ اجمیر میں تفسیر آیات مہدویت کا سلسلہ جاری

حوزہ/ مدرسہ جعفریہ تاراگڑھ اجمیر میں امام جمعہ مولانا نقی مہدی زیدی کے توسط سے درس تفسیر قرآن بعنوانِ ”تفسیرِ آیات مہدویت" کا سلسلہ جاری ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،امام جمعہ تاراگڑھ مولانا نقی مھدی زیدی نے کہا کہ: آیات مہدویت قرآن کریم کی ان آیات کو کہا جاتا ہے جن کی تفسیر میں مہدویت سے مربوط موضوعات جیسے ظہور، قیام، غیبت اور حکومت وغیرہ کے بارے میں گفتگو کی جاتی ہے۔ آیات مہدویت کی تعداد تقریبا 500 تک بتائی گئی ہے۔ ان آیات کی تفسیر یا تأویل میں اہل بیتؑ سے مروی احادیث سے استناد کیا گیا ہے۔

مولانا نقی مھدی زیدی نے بیان کیا کہ: "مَہدَویت" عربی زبان کا ایک لفظ ہے جو لفظ "مہدی" سے مشتق ہے اور لفظ "مَہدَوی" میں "تا" کے اضافہ سے بنا ہے۔ مہدوی کے معنی مہدی سے تعلق رکھنے کے ہیں جس طرح عَلَوی اور حَسَنی سے مراد علی اور حسن سے تعلق رکھنے کے ہیں، اور یہ لفظ شیعہ اثنا عشری کے یہاں امام حسن عسکریؑ کے فرزند گرامی حجت بن‌ الحسن کے ساتھ مختص ہے۔ ان کے مطابق حجت بن‌ الحسن پیغمبر اکرمؐ کی نسل سے ہیں جن کے آنے کا آپؐ نے وعدہ کیا تھا اور آخری زمانے میں انسانوں کو نجات دینے کیلئے آپ ظہور فرمائیں گے۔ لفظ مہدی کو منجی اور نجات‌ دہندہ کے معنی میں استعمال کرنا احادیث نبوی کی بنیاد پر ہے۔ الْمَہْدِی مِنْ وُلْدِی، وَجْہُہُ کالْکوْکبِ الدُّرِّی، وَ اللَّوْنُ لَوْنٌ عَرَبِی، وَ الْجِسْمُ جِسْمٌ إِسْرَائِیلِی، یمْلَأُ الْأَرْضَ عَدْلًا کمَا مُلِئَتْ جَوْراً، یرْضَی بِخِلَافَتِہِ أَہْلُ السَّمَاءِ وَ الطَّیرُ فِی الْجَو يملك عشرين سنۃ، مہدی میری نسل سے ہے ان کے چہرے کا رنگ عربی نژاد افراد کے چہرے کی رنگ کی طرح ہے اور ان کا بدن بنی اسرائیل کے لوگوں کے بدن کی طرح ہوگا۔ ان کے دائیں رخسار پر ایک خال ہے جو ایک روشن ستارے کی مانند چمکتا ہے، وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے جس طرح وہ ظلم و جور سے بھری ہوئی گی، زمین و آسمان کے مخلوق اور ہوا میں اڑنے والے پرندے ان کی امامت میں خوشحال ہونگے اور وہ بیس سال حکومت کریں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ: آیات مہدویت کے بارے میں بہت ساری کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں سعید ابو معاش کی کتاب "الامام المہدی فی القرآن و السنۃ"، یہ کتاب مہدویت سے مربوط 500 سے بھی زیادہ آیات پر مشتمل ہے، سید ہاشم بحرانی کی کتاب "المحجۃ فیما نزل فی القائم الحجۃ"، اس کتاب کا فارسی ترجمہ سیمای حضرت مہدی در قرآن کے نام سے شائع ہوا ہے، اس میں مہدویت سے مربوط 128 آیات پر بحث کی گئی ہے، اور مھدی یوسفیان کی کتاب "امام مہدی در قرآن" مرتضی عبدی چاری کی کتاب "معجم مہدویت در روایات تفسیری"، معجم الاحادیث الامام المہدی، آٹھ جلدوں پر مشتمل ہے اس کتاب کی ساتویں جلد میں ان احادیث کو جمع کیا ہے جن میں ائمہ اہل بیتؑ نے امام مہدی سے متعلق آیات کی تفسیر یا تأویل فرمائی ہیں، ان کے علاوہ محسن طباطبائی کی کتاب "معجم مہدویت در تفاسیر شیعہ و اہل سنت"، سید داود میرصابری کی کتاب "الآیات الباہرہ فی بقیۃ العترۃ الطاہرۃ"، مہدی حسن علاء الدین کی کتاب "القرآن یتحدث عن الامام المہدی"، سید عبدالرحیم موسوی کی کتاب "الامام المہدی فی القرآن" سید صادق شیرازی کی کاوش "المہدی فی القرآن"مہدویت کے بارے میں لکھی گئی کتابوں میں سے ہیں۔ اہل سنت کی معتبر تفاسیر نے بھی لکھا ہے کہ قرآن کی بعض آیات کریمہ حضرت مہدی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہیں جیسے: "نظام نیشابوری" کی کتاب غرائب القرآن، "جار اللہ زمخشری" کی کتاب الکشاف، "شہاب الدین آلوسی بغدادی" کی کتاب روح المعانی، "شیخ محمد عبدہ مصری" کی کتاب المنار وغیرہ ہیں۔

مولانا نقی مھدی زیدی نے کہا کہ: آیات مہدویت کو چار حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

1۔ وہ آیات جن کی تفسیر میں مہدویت سے مربوط کسی موضوع کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر اہل بیتؑ سے نقل شدہ تفسیری احادیث میں امام زمانہؑ کی غیبت کے زمانے کی بعض خصوصیات جیسے مؤمنین کو درپیش سختیاں اور ان پر خدا کے امتحانات سے متعلق بحث کی گئی ہیں۔ اسی طرح بعض آیتوں میں ظہور کی نشانیوں جیسے سفیانی کا خروج اور بَیداء کے مقام پر اس کی نابودی کے بارے میں آیت : وَلَوْ تَرَ‌ىٰ إِذْ فَزِعُوا فَلَا فَوْتَ وَأُخِذُوا مِن مَّكَانٍ قَرِ‌يبٍ، "اور کاش تم دیکھو کہ جب یہ لوگ گھبرائے ہوئے (پریشان حال) ہوں گے لیکن بچ نکلنے کا کوئی موقع نہ ہوگا اور وہ قریبی جگہ سے پکڑ لئے جائیں گے" کے ذیل میں بحث کی گئی ہے۔

2۔ وہ آیات جن مصادیق کے میں مہدویت سے مربوط موضوعات کو شامل کیا جاتا ہے؛ یعنی یہ آیتیں مہدویت پر بھی صدق آتی ہیں؛ مثلا سورہ انبیاء کی آیت نمبر 105: وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ‌ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ‌ أَنَّ الْأَرْ‌ضَ يَرِ‌ثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ، "اور ہم نے ذکر (توراۃ یا پند و نصیحت) کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا کہ زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے"، میں زمین پر نیک لوگوں کی حکومت کی بشارت دی گئی ہے۔

3۔ وہ آیات جو مہدویت سے مربوط مباحث اور ان سے متعلق ایجاد ہونے والے اعتراضات کا جواب دینے میں ان سے استناد کیا جاتا ہے، جیسے آیہ وَلِکلِّ قَوْمٍ ہَادٍ، "اور ہر قوم کے لئے ایک راہنما ہوتا ہے"، جس کی بنیاد پر خدا ہر قوم کی ہدایت کے لئے انہی میں سے ایک شخص کو انتخاب فرماتا ہے جو ان کی ہدایت کرے۔ امام صادقؑ سے اس آیت کی تفسیر میں نقل ہوا ہے کہ: ہر زمانے میں ہم اہل بیت میں سے ایک امام موجود ہوگا جو لوگوں کو پیغمبر اکرمؐ کے لائے ہوئے احکامات کی طرف رہنمائی کرے گا۔

4۔ تفسیری احادیث میں امام زمانہؑ کے قیام کو عالم غیب اور ایام اللہ کے مصادیق میں شمار کرنے والی آیات۔

امام جمعہ تاراگڑھ نے کہا کہ: حضرت مہدی علیہ السلام، آخری زمانہ ان کے ظہور، صالحین کی حکومت اور ان پر کامیابی و کامرانی کے سلسلہ میں قرآن مجید کی بہت سی آیات میں تذکرہ ہوا ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہوتا ھے: "وَ لَقَدْ كَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُهَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ" ہم نے توریت کے بعد حضرت داؤد علیہ السلام کی کتاب زبور میں لکھا ہے کہ آخرکار صالح افراد اس زمین کے مالک ہوں گے۔

ائمہ اہل بیت علیھم السلام کی طرف سے متواتر احادیث اس موضوع پر موجود ہیں جن میں صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ "عبادی الصالحون" قائم آل محمّد علیہ السلام اور ان کے اصحاب ہیں، حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: ”اس سے مراد آخری زمانے میں حضرت مہدی علیہ السلام کے اصحاب ہیں۔“ امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے: لو لَمْ یَبْقَ مِنَ الدُّنْیَا اِلَّا یَوْمٌ لَطَوَّلَ اللہُ ذَلِکَ الیَوْمَ حَتَّی یبعث اللہ رجل منی یَمْلَاَھَا قِسْطاً وَ عَدْلاً کَمَا مُلِئَتْ ظُلْماً وَ جَوْراً۔۔۔۔، "اگر دنیا کی عمر میں صرف ایک دن رہ گیا ہو تو بھی اللہ اس دن کو اس قدر طولانی بنا دے گا تاکہ ایک شخص کو بھیجے گا جو مجھ سے ہو، جو زمین کو عدل و انصاف سے ایسے بھر دے گا جیسے ظلم وجور سے بھری ہو گی۔"

دوسری سورہ قصص کی آیت "وَ نُرِیۡدُ اَنۡ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیۡنَ اسۡتُضۡعِفُوۡا فِی الۡاَرۡضِ وَ نَجۡعَلَہُمۡ اَئِمَّۃً وَّ نَجۡعَلَہُمُ الۡوٰرِثِیۡنَ"، اور ہم یہ ارادہ رکھتے ہیں کہ جنہیں زمین میں بے بس کر دیا گیا ہے ہم ان پر احسان کریں اور ہم انہیں پیشوا بنائیں اور ہم انہی کو وارث بنائیں۔ یہاں ارادہ تکوینی بیان ہوا ہے جو حتمی الوقوع ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا حتمی قانون ہے جو لوگ برائے خدا ظلم و ستم کا شکار ہوتے رہے ہیں ان پر اللہ احسان ضرور کرے گا۔ ان تمام مظلوم قوموں کے لیے یہ ایک عظیم بشارت ہے جو عدل و انصاف کی حکومت قائم کرنا اور ظلم و جور کا خاتمہ چاہتی ہے، آگے اس احسان کی نوعیت کا ذکر کیا گیا ہے، وَ نَجۡعَلَہُمۡ اَئِمَّۃً، انہیں اللہ انسانوں کی قیادت کا عہدہ عنایت فرمائے گا۔

علامہ حسکانی نے شواھد التنزیل میں متعدد طرق سے حضرت علی علیہ السلام کا یہ فرمان نقل کیا ہے:

لَتَعْطِفَنَّ الدُّنْیَا عَلَیْنَا بَعْدَ شَمَاسِھَا عَطْفَ الضَّرُوسِ عَلَی وَلَدِھَا۔۔۔، یہ دنیا اپنی دشمنی دکھانے کے بعد پھر ہماری طرف جھکے گی جس طرح کاٹنے والی اونٹنی اپنے بچے کی طرف جھکتی ہے، اس کے بعد آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی،دوسری روایات میں حضرت علی علیہ السلام اور ائمہ علیہم السلام نے فرمایا:

"المستضعفین" ہم ہیں۔ جابر بن عبداللہ انصاری راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "یا بنی ھاشم المستضعفون المقہورون المستذلون" اے بنی ہاشم! میرے بعد تم مستضعف (بے بس) مغلوب اور ناقابل احترام ہوں گے۔

مولانا نقی مھدی زیدی نے کہا کہ: ائمہ معصومین علیہم السلام نے امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے قیام کو اس آیت کا مقصود قرار دیا ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha