امام محمد تقی علیہ السلام کو "جواد الائمہ" کیوں کہا جاتا ہے؟

حوزہ/ حجت الاسلام اشتری نے کہا: "جواد" کا مطلب بہت زیادہ بخشش کرنے والا ہے، اور یہ لقب صرف شیعہ روایات یا اقوال پر مبنی نہیں ہے، بلکہ اہل سنت کے کئی بزرگ علما نے بھی امام رضا علیہ السلام کے فرزند کے لیے یہ لقب استعمال کیا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی | محمد بن علی بن موسیٰ، جو امام جواد اور امام محمد تقی (علیہ السلام) کے نام سے معروف ہیں، شیعوں کے نویں امام ہیں۔ آپ کی کنیت "ابو جعفر" اور القاب میں "جواد" اور "ابن الرضا" شامل ہیں۔ آپ کو "جواد" اس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ آپ بہت زیادہ سخی اور فیاض تھے۔

شہادت کی مناسبت سے حجت الاسلام ایوب اشتری، جو ایک محقق اور دینی اسکالر ہیں، سے گفتگو کی گئی۔

امام جواد علیہ السلام کی ولادت اور سوانح پر روشنی ڈالیں۔

مرحوم شیخ طوسی (رضوان اللہ تعالیٰ علیہ) کی کتاب مصباح المتهجد جو ایک معتبر شیعہ کتاب ہے، میں درج ہے: "یوم العاشر مولد ابی جعفر الثانی" یعنی دسویں رجب کو امام جواد علیہ السلام کی ولادت ہوئی۔

البتہ شیخ مفید اور کفعمی اس بارے میں دیگر اقوال رکھتے ہیں۔ ابن شہرآشوب اور علامہ مجلسی (رضوان اللہ علیہما) مدتِ امامت کے بارے میں فرماتے ہیں: "امامت کی مدت سترہ سال تھی۔ اپنے والد کے ساتھ سات سال، چار ماہ اور دو دن گزارے، اس کے بعد سترہ سال، گیارہ ماہ اور دس دن امامت فرمائی۔"

علامہ مجلسی مزید فرماتے ہیں کہ: "امامت کے دوران خلافت کا بقیہ حصہ مامون کے دور میں تھا، اس کے بعد معتصم اور پھر واثق کی خلافت کے زمانے میں آپ کی امامت رہی۔"

امام جواد علیہ السلام کو عوام میں دیگر ائمہ سے کم کیوں جانا جاتا ہے؟

شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ان کی زندگی اور شخصیت پر دینی محافل اور میڈیا میں کم توجہ دی گئی۔ ہم صرف مناسبتوں پر ان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، حالانکہ ہمیں اپنی اس سوچ کو بدلنا چاہیے تاکہ ہم اس امام کی معرفت سے بہتر فائدہ اٹھا سکیں۔

تاہم الحمدللہ اسلامی جمہوریہ ایران کی برکت سے ان کی منزلت پر تحقیقی کام ہوا ہے، لیکن ابھی بھی ہم اس امام کی حقیقت اور مقام سے دور ہیں۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ تمام اہل بیت علیہم السلام ہدایت کے دروازے اور مہدی ہیں اور ایک ۲۵۰ سالہ انسان کی طرح ایک مکمل معرفتی نظام پیش کرتے ہیں۔

امام جواد علیہ السلام کی اخلاقی و علمی خصوصیات بیان فرمائیں۔

ایک خوبصورت علمی مثال: روایات میں ہے کہ ایک دن ابن ابی داؤد معتصم کے دربار سے افسردہ واپس آیا۔ لوگوں نے پوچھا، تو اس نے کہا: "آج ایک ایسا منظر دیکھا کہ کاش بیس سال پہلے مرگیا ہوتا اور یہ نہ دیکھتا۔"

قصہ یہ تھا کہ ایک چور نے اپنے جرم کا اقرار کیا اور حد جاری کرنے کی درخواست کی۔ خلیفہ نے فقہاء کو بلایا اور امام محمد بن علی علیہ السلام کو بھی بلایا۔ فقہاء نے کہا ہاتھ کو کلائی یا کہنی سے کاٹا جائے۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: "یہ دونوں فتاویٰ غلط ہیں، ہاتھ کو انگلیوں کے جوڑ سے کاٹا جائے اور ہتھیلی باقی رہے تاکہ سجدہ ممکن ہو۔" خلیفہ نے اس فتوے کو قبول کیا۔

ابن ابی داؤد نے کہا: "جب خلیفہ نے ان کی بات پر عمل کیا تو میں ہلاک ہو گیا۔"

امام جواد علیہ السلام کے چند اقوال:

1. مؤمن کو تین چیزوں کی ضرورت ہے: اللہ کی توفیق، اپنے نفس سے نصیحت حاصل کرنا، اور خیر خواہی کو قبول کرنا۔

(تحف العقول، ص ۴۵۷)

2. بندہ ایمان کی حقیقت تک نہیں پہنچتا جب تک وہ دین کو اپنی خواہشات پر ترجیح نہ دے۔

(بحار الانوار، ج۷۵، ص۸۰)

کیوں امام محمد تقی علیہ السلام کو "جواد الائمہ" کہا جاتا ہے؟

"جواد" یعنی بخشش کرنے والا، یہ لقب صرف شیعوں کی طرف سے نہیں دیا گیا، بلکہ اہل سنت کے بڑے علما بھی اس لقب کے قائل ہیں۔

مثلاً: ذهبی کہتا ہے: ان کا لقب "جواد"، "قانع"، اور "مرتضیٰ" تھا۔ وہ اہل بیت کے نمایاں افراد میں سے تھے، سخاوت کے سبب "جواد" کہلائے۔

(تاریخ الاسلام، ج۱۵، ص۳۸۵)

ابن تیمیہ کہتا ہے: محمد بن علی الجواد بنی ہاشم کے بڑے افراد میں سے تھے، سخاوت اور شرافت میں معروف تھے، اسی لیے "جواد" کہلائے۔

(منهاج السنة، ج۴، ص۶۸)

شیعہ روایت میں بھی آتا ہے کہ امام نے زیتون کے پتوں پر ہاتھ رکھا تو وہ چاندی کے سکوں میں تبدیل ہو گئے، جنہیں بازار میں خرچ کیا گیا اور وہ اصلی چاندی ہی کے سکے تھے۔

(دلائل الامامة، ص۳۹۸)

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام جواد علیہ السلام نے اپنی ولایت تکوینی سے بھی لوگوں پر سخاوت فرمائی۔

امام جواد علیہ السلام کی شہادت کا واقعہ:

مامون کی وفات کے بعد معتصم خلیفہ بنا۔ اس نے امام جواد علیہ السلام کو مدینہ سے بغداد بلایا تاکہ ان پر نظر رکھ سکے۔ چونکہ معتصم، جعفر بن مامون اور امام کی زوجہ ام الفضل (مامون کی بیٹی) کے دل میں حسد تھا، تو انہوں نے ام الفضل کو امام کے قتل پر آمادہ کیا۔

آخر ذی القعدہ ۲۲۰ ہجری میں زہر آلود انگور امام کو کھلایا گیا۔ امام نے زہر کے اثرات محسوس کیے اور سخت بیمار ہو گئے۔ ام الفضل رونے لگی تو امام نے فرمایا: "جب مجھے قتل کر دیا تو اب رونے کا کیا فائدہ؟ خدا کی قسم تو ایسی فقر، درد اور بلا میں مبتلا ہو گی جو ناقابل علاج ہو گی۔"

چنانچہ ام الفضل بیمار ہو گئی، سب کچھ خرچ کر دیا، فقیر ہوئی، اور اسی فقر میں مر گئی۔

(المناقب، ابن شہرآشوب؛ إثبات الوصیہ، ص۲۲۰)

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha