تحریر: سید فصیح کاظمی
اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُذۡہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ وَ یُطَہِّرَکُمۡ تَطۡہِیۡرًا
اللہ کا ارادہ بس یہی ہے ہر طرح کی ناپاکی کو اہل بیت ! آپ سے دور رکھے اور آپ کو ایسے پاکیزہ رکھے جیسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔
آئمہ معصومین علیھم السلام کی حیات طیبہ کا مطالعہ درحقیقت دراصل دین کی صحیح سمجھ اور راہ حق میں کی جانے والی کوششوں کے بارے میں ہے چونکہ ہم ہر میدان میں چاہے وہ اعتقادی، فقہی اخلاقی یا سیاسی ہو ہر میدان میں انکے ہمیشہ رہ جانے والے اثرات ہیں۔
ہمارا مقصد یہ ہے کہ امام علی نقی علیہ السلام کی حیات طیبہ کا جائزہ لیں اور تاریخ کی ان بے مثال اور تاریخ کی درخشاں حقیقت سے اپنی بساط کے مطابق روشنی ڈالیں امام کے بارے میں آگاہی حاصل کریں۔آپ کو امام ھادی بھی کہا جاتا ہے۔
آپ کی ولادت با سعادت مدینے کے ایک محلہ صربا میں 15 ذی الحجہ 212ھ کو ہوئی۔آپ کی والدہ کا نام سمانہ خاتون تھا۔
آپکی تربیت اپنے والد گرامی امام محمد تقی (جواد) علیہ السلام کے ذریعے ہوئی انہی کے سایہ میں بڑے ہوئے۔
امام جواد علیہ السلام کو لوگ اپنا پیشوا و رہبر مانتے تھے حالانکہ اس زمانے میں سیاسی طور پر ولایت علی اور اہل بیت کی مکمل طور پر مخالفت تھی لیکن کسی کی جرات نہیں تھی کہ امام کی منزلت و مرتبت لوگوں کی نظر میں کم کر سکے۔
عباسی خلیفہ مامون کی بنی عباس کے سرکردہ افراد کے سامنے امام کی حمایت میں سخت گفتگو کرنا تاریخی دریچوں کو واضح طور پر نمایاں کرتی ہے۔
مامون نے جب اپنی بیٹی کی شادی امام جواد علیہ السلام سے کرنے کا ارادہ کیا جب امام کی عمر فقط 9 سال تھی تو بنی عباس میں ہلچل مچ گئی اور وہ مامون پر اعتراض کرنے لگے۔
امام ھادی علیہ السلام کی ذاتی خصوصیات
امام ھادی علیہ السلام مقدس سلسلہ امامت کی ایک کڑی ہیں۔آپ علیہ السلام بندگی اور عبودیت کا ایک بہترین نمونہ ہیں آپ روشن فکر اور آزادی کیلئے لڑنے والے مجاہدین اور ظالم کے خلاف قیام کرنے والوں کیلئے بہترین نمونہ تھے۔
جن علماء و دانشمندوں نے آپ کے بارے میں لکھا انہوں نے آپکی سیرت طیبہ اور آپ کی علمی فضائل اور برکات پر ضرور روشنی ڈالی۔
ابو عبداللہ جنید نے امام کے بارے میں کہا:
بخدا آپ اپنے زمانے کے زمین پر بہترین مرد اور افضل ترین شخصیت تھے۔
امام علیہ السلام کا سخت ترین دشمن بھی صحیح طور پر آپ کی عظمت اور بلند قدر و منزلت کا معترف تھا۔ یہ بات اس کے وہ خط ہیں جو اس نے امام کر لکھے۔
یہاں اختیار کیلئے فقط ان خطوں کا حوالہ ذکر کئے دیتا ہوں تا کہ اگر کوئی ملاحظہ کرنا چاہتا ہو تو پڑھ سکتے ہیں۔
(شذرات الذہب جلد ۳ ص۱۲۹ نقل از امام ھادی مصنفہ علی محمد دخیل)
امام ھادی کے چند القابات
نقی، عالم، فقیہ، امین، طیب اعلام الوری
امام کی اور بھی بہت سی فضیلتیں اور خصوصیات ذکر ہوئی ہیں تمام کو یہاں ذکر کرنا ممکن نہیں۔
امام کی سیاسی جدوجہد
امام علیہ السلام یہ جانتے تھے کہ معاشرہ کسی قسم کی مسلح جھڑپ کا متقاضی نہیں ہے اسی لیے امام نے اس سلسلے میں کوئی کوشش نہیں کی لیکن اس کے باوجود عباسی خلفاء ان سے سیاسی رہبری کے اعتبار سے خوف کرتے تھے۔
وقت کے ظالم اور متکبر حکمراں جو فساد کی جڑ اور اپنی عیاشیوں میں ڈوبے ہوئے تھے انہیں لوگوں کی پروہ نا تھی۔
بر خلاف اس کے امام کا رابطہ لوگوں سے رہتا امام کا لوگوں کی نظر میں بڑا مقام و مرتبہ تھا۔امام ہمیشہ علوی تحریکوں کی حمایت کرتے اور سیاسی و نظریاتی تحریکوں میں نشونما میں مدد کرتے تھے۔
یہی وجہ تھی کہ حکمران امام کی اس مقبولیت سے خائف تھے۔امام کی سیاسی زندگی کا آغاز محمد بن ابن ہارون الرشید کی حکومت کے آخری ایام تھے۔
معتصم نے (جو کہ آئمہ کرام سے خوف محسوس کرتا تھا) 225 ہجری میں امام کو مدینہ سے بغداد بلا لیا۔اور سکونت اختیار کرنے پر مجبور کیا گیا۔
امام ھادی علیہ السلام مشکل دور میں اپنے والد گرامی کے زیر سایہ زندگی گزار رہے تھے کہ سایہ پدر نا رہا اور مشکل دور میں اکیلے ہی اب دور امامت میں مشکل حالات کو برداشت کرنا تھا۔
امام ہادی اور متوکل عباسی
واثق کی موت کے بعد 232 ہجری کو متوکل عباسی تخت نشین ہوا۔یہ علویوں کا شدید دشمن تھا۔
اس نے امام حسین علیہ السلام کی ضریح مبارک کو گرانا، اجتماعی و سماجی حیثیت کو ختم کرنا، تحقیر کرنا، علویوں کا اقتصادی بائکاٹ، بیت المال کے وظیفے روکنا، امام ھادی پر سخت دباؤ اور امام کے قتل کی سازش، اس کے علاؤہ اور بھی نا قابل فراموش جرائم ہیں جو اس نے انجام دیے۔نیز اس نے امام علی علیہ السلام کے روزے پر جانے والوں کیلئے سخت سزا رکھی ہوئی تھی۔
امام ہادی علیہ السّلام سامرہ میں
یہاں پر متوکل نے مختلف حربے استعمال کر کے امام کو ستایا کبھی امام کو شھید کرنے کی کوشش کی جاتی کبھی گھر کی تلاشی کبھی تہمت لگا کر محل میں لے جاتے اور بھی بہت کچھ لیکن ہمیشہ امام کو خدا نے ان سب سے محفوظ رکھا اور دشمن پر برتری دی۔
علوی تحریکیں
تمام مسلمانوں پر اور بلخصوص آل ابو طالب پر جب مصیبتوں کا دباؤ شدید ہوا تو ان کی جانب سے مسلح تحریکیں شروع ہو گئیں اور بہت اور بھی عوامل متوکل کی حکومت کے خلاف مہیا ہو گئے خود ارباب اختیار میں بھی پھوٹ پڑھ گئی جو اندرون نظام تھے متوکل کے قتل کے بھی یہی عوامل بنے۔
متوکل کا انجام
متوکل نے کھلم کھلا آل ابو طالب کی مخالفت کی اور بہت برے طریقے سے پیش آتا رہا بلآخر حکومت میں پھوٹ پڑ گئی اور محل کے اندر ہی جب وہ شراب کے نشے میں مست تھا قاتلانہ حملے میں مارا گیا حملے میں اس کا بیٹا منتصر بھی شریک تھا قتل کے بعد منتصر کی بیعت کی ہوئی۔
منتصر کا آل ابو طالب کے ساتھ رویہ
اس نے علویوں کے ساتھ بہت اچھا رویہ رکھا اور ان کے اموال و املاک اور فدک کو واپس کر دیا اور لوگوں کو حکم دیا کہ امام علی علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کے حرموں کی زیارت کیلئے جائیں اور رہائش کی اجازت بھی دی منتصر نے 248 میں وفات پائی۔
آخری بات
جو بھی امام علیہ السلام کی زندگی کا مطالعہ کرے وہ بخوبی جان لے گا کہ امام ہمیشہ حکومت کی طرف سے تکلیفیں سختیاں اور قید و بند کی مشکلات سے دو چار رہے۔
امام کو اپنے نانا کے شہر سے نکل کر سامرہ جانے پر مجبور کیا گیا تاکہ آپ معاشرتی و سیاسی سرگرمیاں نا کر سکیں۔یوں امام کا ایک لمبا عرصہ عباسی دارالخلافہ سامراء میں گزرا۔
امام ہادی علیہ السلام سامراء میں 10 سال اور چند ماہ ٹھہرے اور خلیفہ معتز کی خلافت میں 41 سال عمر شریف پانے کے بعد 3 رجب المرجب 254 ہجری کو شہادت پائی آپ کا مزار مبارک سامراء میں ہے۔