۲۹ شهریور ۱۴۰۳ |۱۵ ربیع‌الاول ۱۴۴۶ | Sep 19, 2024
هيام الاربعين

حوزہ/ اسلامی تہذیب و تمدن میں باہم ملاقات کرنے اور سلام کرنے کے آداب دنیا کی تمام اقوام سے زیادہ معقول، پر معنی، مہذب اور مترقی ہیں ۔ان آداب پر متعدد کتابیں لکھی گئی ہیں۔دنیا سے رحلت فرمانے والے انبیا، اولیا،  معصومین، شہدا ، صالحین اور مومنین کو سلام کرنے اور ان کی زیارت کرنے کے آداب و احکام بہت مفصل ہیں۔ انہی زیارتوں میں سے ایک زیارت اربعین ہے جس کی بڑی فضیلت ہے۔اسے مومن کی پانچ نشانیوں میں سے ایک قرار دیا گیا ہے۔

تحریر: مہدی اخوند زادہ

حوزہ نیوز ایجنسی | ملاقات کے وقت ایک دوسرے کا احترام اور سلام کلام پوری تاریخ میں انسانی رسم و رواج میں سے ایک رہا ہے۔ مثال کے طور پر، عیسائی سلام لئے منہ پر ہاتھ رکھتے ہیں جبکہ ایرانی سلام کے لیے جھکتے ہیں۔ بعض ممالک میں، ٹوپی اتارنا احترام اور سلام کی علامت ہے۔ عرب لوگ لفظ "حیاک اللہ" یا سلام علیکم کہہ کر ایک دوسرے کو سلام کرتے ہیں ۔( کتاب زیارت عاشورا و آثار معجزه آسای آن، ص53و54 ،ناصر رستمی لاہیجانی )

اسلامی تہذیب و تمدن میں باہم ملاقات کرنے اور سلام کرنے کے آداب دنیا کی تمام اقوام سے زیادہ معقول، پر معنی، مہذب اور مترقی ہیں ۔ان آداب پر متعدد کتابیں لکھی گئی ہیں۔دنیا سے رحلت فرمانے والے انبیا، اولیا، معصومین، شہدا ، صالحین اور مومنین کو سلام کرنے اور ان کی زیارت کرنے کے آداب و احکام بہت مفصل ہیں۔ انہی زیارتوں میں سے ایک زیارت اربعین ہے جس کی بڑی فضیلت ہے۔اسے مومن کی پانچ نشانیوں میں سے ایک قرار دیا گیا ہے۔ یہاں اس انسان ساز اور معاشرہ ساز زیارت کے بعض حصوں کی تشریح پیش کی جا رہی ہےتاکہ تشنگان حقیقت کو فائدہ حاصل ہو۔

زیارت اربعین کا پہلا اقتباس : السَّلَامُ عَلَی وَلِیِّ اللَّهِ وَ حَبِیبِه.

سلام کا مفہوم: علما نے سلام کے مختلف معنی بیان کیے ہیں جن کا خلاصہ ہم یہاں کریں گے۔
الف۔ سلام اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے اور اس کا مطلب ہے: خدا آپ کا محافظ ہو۔
السَّلامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَیْمِنُ(سورہ حشر/23)
ب۔ سلام کے معنی ہیں : تسلیم ہونا۔
ج۔ سلام کے معنی ہیں: امن اور سلامتی ۔
ان تمام مذکورہ معانی کی اساس سلامتی ہے ۔(کتاب التحقیق، ج5، ماده س ل م.)۔
سلام ایک ایسا جملہ ہے جو بہت سے مفاہیم سے لبریز ہے۔ سلام عظیم جملہ ہے۔ سلام میں خدا کے الفاظ ، فرشتوں کے کلمات اور مومنین کے درمیان مرسوم کلمات شامل ہیں۔ خدا جنت والوں کو سلام کرتا ہے۔
سَلامٌ قَوْلاً مِنْ رَبٍّ رَحیم۔ "انہیں رب رحیم کی طرف سے سلام کہا جاتا ہے۔"
حضرت سید الشہداء علیہ الصلوٰۃ والسلام کے روضہ مبارک میں جو اعمال رائج ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ حضرت کا زائر آپ کے سر ہانے کے قریب کھڑا ہو اور یہ کہے :
یَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ أَشْهَدُ أَنَّکَ تَشْهَدُ مَقَامِی وَ تَسْمَعُ کَلَامِی وَ أَنَّکَ حَیٌّ عِنْدَ رَبِّکَ تُرْزَقُ فَاسْأَلْ رَبَّکَ
وَ رَبِّی فِی قَضَاءِ حَوَائِجِی۔اے ابو عبداللہ! میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ مجھے دیکھتے ہیں، میری باتیں سنتےہیں، آپ زندہ ہیں اور اپنے رب کے حضور رزق پاتے ہیں۔ لہٰذا اپنے اور میرے رب سے سوال کیجیے کہ وہ میری حاجتیں پوری فرمائے۔

وَلِیِّ اللَّهِ

" وَلِیّ اللَّهِ" کے معنی میں دو احتمالات پائے جاتے ہیں۔
پہلا احتمال: ولی اللہ میں ولی سے مراد سرپرست اور صاحب اختیار ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام لوگوں کا سرپرست ہیں۔یہاں لفظ ولی کا اللہ کی طرف اضافہ ہوا ہے (ولی مضاف اور اللہ مضاف الیہ ہے) جس کے معنی ہیں: اللہ کا ولی۔ جس طرح رسول اللہ کے معنی ہیں: اللہ کا رسول۔
اس کا مفہوم یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی ولایت کی نسبت اللہ کی طرف دی گئی ہے ۔جب ولی منصوب من اللہ ہو تو کوئی دوسرا اس کو نصب یا معزول کرنے پر قادر نہیں ہے ۔ خدا اپنی کتاب میں فرماتا ہے:
إِنَّما وَلِیُّکُمُ اللَّهُ وَ رَسُولُهُ وَ الَّذینَ آمَنُوا الَّذینَ یُقیمُونَ الصَّلاهَ وَ یُؤْتُونَ الزَّکاهَ وَ هُمْ راکِعُون۔
تمہارا ولی اور سرپرست تو صرف خدا اور اس کا رسول اور وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے ہیں ، نماز قائم کرتے ہیں اور رکوع کی حالت
میں زکوٰۃ دیتے ہیں۔

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آیت میں ولی کے معنی ولایت، مالکیت اور مادی و روحانی تصرف کا زیادہ حق رکھنے والے کے ہیں۔ خاص کر اس وجہ سے کہ یہاں ولایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم اور آپ کے خاندان کی ولایت کی طرح ایک ہی جملے میں مذکور ہے۔یہاں خدا، رسول اور امام کی ولایت، تینوں کا اظہار ایک ہی جملے میں کیا گیا ہے۔ تفسیر المیزان میں اس سلسلے میں درج ذیل روایت نقل ہوئی ہے: امام صادق علیہ السلام نے امیر المومنین علیہ السلام کے بارے میں نازل ہونے والی آیت کو تمام اہل بیت کی طرف منسوب کیا۔ اہل بیت علیہم السلام، اس لیے کہ اہل بیت کے تمام معصومین پر سلام ہے اور سب کے لیے عوام کے فرائض یکساں ہیں۔اللہ تعالیٰ قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:
وَ مَنْ یَتَوَلَّ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ وَ الَّذینَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْغالِبُون۔"اور جو لوگ خدا اور اس کے رسول اور مومنین کی ولایت کو قبول کرتے ہیں وہ غالب ہوں گے کیونکہ خدا کی جماعت ہی فاتح ہیں۔

یاد رہے کہ اللہ کی عظیم نعمتوں میں سے ایک ولایت کی نعمت ہےکیونکہ یہ نعمت دین و دنیا دونوں میں فائدہ دیتی ہے جبکہ اللہ کی کچھ نعمتیں صرف دنیا میں مفید ہیں۔ لہذا اس نعمت کی قدر دانی واجب ہے ۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے۔
وَ اذْکُرُواْ نِعْمَهَ اللَّهِ عَلَیْکُمْ۔"اور اپنے اوپر اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو۔"
سورہ مائدہ کی تیسری آیت میں ارشاد الہی ہے:
الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَ أَتمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتیِ وَ رَضِیتُ لَکُمُ الْاسْلَامَ دِینًا۔آج میں نے آپ کے دین کو مکمل کر دیا اور آپ پر اپنی نعمت تمام کر دی اور اسلام کو ابدی دین تسلیم کر لیا۔
پس ولایت نہ صرف ایک نعمت ہے بلکہ ایک کامل نعمت ہے۔ یہ کامل نعمت ہے ائمہ علیہم السلام کی ولایت سے عبارت ہے۔

دوسرا احتمال:

بعض تفاسیر میں سورہ نساء کی آیت نمبر ۶۲ کے بارے میں کہا گیا ہے:"ولی" اصل میں مادہ "ولی یلی"سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے: دو چیزوں کا بلا واسطہ متصل ہونا یا ان کا بلا فاصلہ پے درپے واقع ہونا۔ یہاں مقام، زمانہ، نسب یا حیثیت کے لحاظ سے اتصال مراد ہے۔ یہاں ولی سے مراد"سرپرست" ہے۔ پس ولی اللہ وہ ہے جس کے اور خدا کے درمیان کوئی رکاوٹ یا فاصلہ نہ ہو۔ دوسرے لفظوں میں ولی اللہ وہ ہے جو خدا کے قریب ہو ۔ وہ ولی اللہ اس لیے ہے کہ وہ اللہ کے قریب ہے۔ خدا کے سوا ہر چیز اس کی نظر میں چھوٹی ہے، جیسے سمندر سے متصل قطرہ۔ اس کی نظر میں ایک قطرے کی کوئی قدرو قیمت نہیں۔اسی طرح جو شخص سورج کو دیکھتا ہے اس کی نظر میں بے نور شمع کی کیا حیثیت ہو گی ۔(39)چونکہ امام حسین علیہ السلام خدا کے ولی اور خدا کے مقرب ہیں اس لئے جو کوئی خدا اور پاک ائمہ علیہم السلام کا قرب حاصل کرنا چاہتا ہے اسے امام حسین علیہ السلام کے ذریعے قرب حاصل کرنا چاہئے۔ جیسا کہ ہم زیارت عاشورا میں پڑھتے ہیں:یَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ إِنِّی أَتقرّب إِلَی اللَّهِ وَ إِلَی رَسُولِهِ وَ إِلَی أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ وَ إِلَی فَاطِمَهَ وَ إِلَی الْحَسَنِ وَ إِلَیْکَ بِمُوَالاتِکَ۔اے ابوعبد اللہ ! میں آپ سے دوستی اور محبت کے ذریعے خدا، اس کے رسول، امیر المومنین، فاطمہ اور حسن علیہم السلام کی اور اللہ کی قربت چاہتا ہوں۔
حبیب کے معنی: لفظ "حبیب" کے معنی ہیں: پیارا ،محبوب ، مقبول اور پسندیدہ۔ امام حسین علیہ السلام اللہ کے دوست اورمحبوب ہیں۔ خدا قرآن پاک میں فرماتا ہے:و الَّذینَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ۔ جو لوگ ایمان رکھتے ہیں، ان کی خدا سے محبت زیادہ شدید ہوتی ہے۔

امام صادق علیہ السلام کی ایک حدیث ہے کہ اس آیت سے مراد آل محمد علیہم السلام ہیں۔ امام حسین علیہ السلام نہ صرف الفاظ میں بلکہ عمل میں بھی خدا سے گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ جب امام حسین علیہ السلام نے مدینہ سے نکلنا چاہا تو ام سلمہ رضی اللہ عنہا ان کے پاس آئیں اور بولیں: بیٹا! عراق جا کر مجھے غمگین نہ کرو۔ میں نے آپ کے دادا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: میرے فرزند حسین کو عراق کی سرزمین کربلا میں قتل کیا جائے گا۔

دوسرا اقتباس : السَّلَامُ عَلَی خَلِیلِ اللَّهِ وَ نَجِیبِه۔

سلام ہوخدا کے دوست پر اور خدا کے برگزیدہ بندے پر۔
خلیل لغت میں بہت ہی قریبی دوست کو کہا جاتا ہے۔ انبیاء میں سے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خلیل کا درجہ عطا فرمایا، جیسا کہ فرماتا ہے:وَ اتَّخَذَ اللَّهُ إِبْراهیمَ خَلیلاً۔(نساء:125)اللہ نے ابراہیم کو اپنا خلیل مقرر کیا۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت اور حضرت ابو عبداللہ حسین کی قربانی پر ایک نظر ڈالنے سے ہم امام حسین علیہ السلام کے خلیل اللہی چہرے کو سمجھ سکتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدا کے علاوہ کسی اور کی مدد کو اس وقت رد کر دیا تھا جب انہیں ایک منجنیق کے ذریعے آگ میں ڈالا گیا تھا۔ اس وقت جبرائیل علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملنے آئے اور ان سے بولے: "ا لک حاجۃ؟" کیا آپ کو مدد کی ضرورت ہے ؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک مختصر فقرے میں فرمایا:"اما الیک فلا" (آپ کی مدد کی ضرورت نہیں)" (بحار الانوار ج91، ص504)یعنی مجھے اس کی مدد کی ضرورت ہے جو کسی کا محتاج نہ ہو اور ہر ایک پر کرم کرنے والا ہو۔ابراہیم ؑ کی طرح امام حسین علیہ السلام نے بھی دوسروں کی مدد کو ٹھکرا دیا۔ جب آسمان، زمین اور فرشتے اور جن ّ امام حسین علیہ السلام کی مدد کے لیے تیار ہو گئے تو آپ نے قبول نہیں فرمایا۔امام حسین علیہ السلام نے کسی کی مدد قبول نہ کی اور رب کی طرف متوجہ ہو کر دعا کی:الهی وَ سَیِّدی ! وَدَدْتُ اَنْ اُقْتَلَ وَ اُحْیی سَبْعینَ اَلْفَ مَرَّهٍ فی طاعَتِکَ ومحبّتکَ، سِیَّما اِذا کانَ فی قَتْلی نُصْرَهُ دینِکَ وَ اِحْیاءُ اَمْرِکَ وَ حِفظُ ناموسِ شَرْعِکَ۔" (بحار الانوار،ج12،ص605)

خدایا میں تیری اطاعت اور محبت کی راہ میں ستر ہزار بار قتل ہونا اور زندہ ہونا چاہتا ہوں۔ خصوصاً اگر میری موت تیرے دین کی مدد ، تیرے امر کے احیا اورتیری شریعت کی حفاظت کا موجب ہو۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کسی سے مدد مانگنے والے کو رد نہیں کرتے تھے اور خدا کے سوا کسی سے مدد نہیں لیتے تھے نیز کثرت سے سجدہ کرتے ، غریبوں کو کھانا کھلاتے ، ان کی دیکھ بھال کرتے اور رات کی نماز پڑھتے تھے۔ اسی طرح امام حسین علیہ السلام بھی انہی خصوصیات کے حامل تھے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کو خلیل اللہ کہنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ایک دوست کی ضرورت ہے، کیونکہ وہ بالکل غنی ہے اور اسے کسی چیز کی ضرورت نہیں۔یہ تو ایک لقب ہے۔ خلیل ان پر اطمینان کا اظہار کرنے کاذریعہ ہے۔ جیسا کہ امام سجاد علیہ السلام ابو حمزہ سمالی کی دعا میں فرماتے ہیں: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی تَحَبَّبَ إِلَیَّ وَ هُوَ غَنِیٌّ عَنِّی۔ تمام تعریف اس ذات کے لیے جو مجھ سے محبت کرتا ہے
حالانکہ وہ ذات مجھ سے بے نیاز ہے۔خلیل اللہ کے مقام کو سمجھنے کے لیے جو کہ ایک بہت بڑا مقام ہے، ہمیں امام صادق علیہ السلام کے ارشادات پر توجہ دینی چاہیے۔

تیسرا اقتباس:السَّلَامُ عَلَی صَفِیِّ اللَّهِ وَ ابْنِ صَفِیِّهِ۔

سلام ہو اللہ کے برگزیدہ بندے پر اور برگزیدہ کے فرزند پر۔
صفی کا مطلب ہے منتخب کردہ اور وہ جسے چنا گیا ہو۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے نہ صرف انبیاء علیہم السلام کو لوگوں کے پیشوا کے طور پر چنا بلکہ ائمہ اطہار علیہم السلام کو بھی لوگوں میں سے منتخب اور چنا۔
إِنَّ اللَّهَ اصْطَفی آدَمَ وَ نُوحاً وَ آلَ إِبْراهِیمَ وَ آلَ عِمْرانَ عَلَی الْعالَمِینَ. ذُرِّیَّهً بَعْضُها مِنْ بَعْضٍ وَ اللَّهُ سَمِیعٌ عَلِیمٌ۔آل عمران، 33۔اللہ تعالیٰ نے آدم ، نوح اور آل ابراہیم اور آل عمران کو تمام جہانوں میں سے چنا۔ ان میں سے بعض، بعض کی ذریت تھے۔ اللہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے۔
بعض تفاسیر میں بیان کیا گیا ہے کہ اس سے مراد آل ابراہیم ہیں جیسا کہ ظاہری بیان سے معلوم ہوتا ہے۔ اسحاق علیہ السلام، یعقوب علیہ السلام، بنی اسرائیل کے دوسرے انبیاء علیہم السلام اور اسمٰعیل علیہ السلام ان کی اولاد میں سے ہیں۔ان کے مولا نبی ﷺ ہیں۔ (المیزان ، ج 3، ص، 166)
یہ دلچسپ ہے کہ ہم زیارت جامعہ کبیرہ میں پڑھتے ہیں: وَ صَفْوَهَ الْمُرْسَلِین (آپ رسولوں میں سے برگزیدہ) وَ سُلَالَۃ النَّبِیِّینَ (جی ہاں، وہ انبیاء کا خلاصہ ہیں۔)
چوتھا اقتباس :السَّلَامُ عَلَی الْحُسَیْنِ الْمَظْلُومِ الشَّهِیدِ۔سلام ہو حسین پر جو مظلوم بھی ہے اور شہید بھی ۔
امام حسین علیہ السلام مظلوم بھی ہیں اور شہید بھی۔ امام الزمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف نے زیارت ناحیہ میں اپنے نانا امام حسین علیہ السلام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:سلام ہو اس شہید پر جو ناحق مارا گیا۔ ابن شہر آشوب کتاب مناقب میں لکھتے ہیں:
جب امام حسین علیہ السلام کا سر مبارک قنسرین میں لایا گیا تو وہاں کے ایک راہب نے امام حسین علیہ السلام کے مقدس سر کو دیکھا۔ اس نے دیکھا کہ امام حسین علیہ السلام کے سر مبارک سے ایک نور نکل رہا ہے اور آسمان کی طرف نور افشاں ہے۔ اس راہب نے دس ہزار درہم دے کر ان سے سرحسین شہید علیہ السلام لے کر اپنی خانقاہ میں داخل کیا۔ راہب نے ایک آواز سنی لیکن کسی کو نہیں دیکھا۔ آواز نے راہب سے کہا: "مبارک ہو تمہیں اور خوش نصیب ہے وہ جو اس حسین علیہ السلام کی حرمت سے واقف ہو۔ راہب نے اپنا سر اٹھایا اور کہا:پروردگارا! میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کےحق کا واسطہ دیتا ہوں کہ تو اس سر کو مجھ سے بات کرنے کا حکم دے۔ وہ سر بولا : اے راہب،تیرا مقصود کیا ہے؟ راہب نے کہا: آپ کون ہیں؟ فرمایا:أَنَا ابْنُ مُحَمَّدٍ الْمُصْطَفَی وَ أَنَا ابْنُ عَلِیٍّ الْمُرْتَضَی وَ أَنَا ابْنُ فَاطِمَهَ الزَّهْرَاءِ وَ أَنَا الْمَقْتُولُ بِکَرْبَلَاءَ أَنَا الْمَظْلُومُ أَنَا الْعَطْشَانُ۔ میں محمد مصطفٰی کا بیٹا ہوں ، میں علی مرتضی کا بیٹا ہوں ، میں فاطمہ زہرا کا بیٹا ہوں اور میں کربلا کا مقتول ہوں ۔ میں مظلوم اور پیاسا ہوں۔
اس کے بعد آپ خاموش ہوگئے۔راہب نے اپنا چہرہ امام حسین علیہ السلام کے چہرے پر رکھا اور کہا: میں آپ کے چہرے سے اپنا چہرہ اس وقت تک نہیں ہٹاؤں گا جب تک آپ یہ نہ کہیں کہ آپ قیامت کے دن میری سفارش کریں گے ۔ وہ مقدس سر بولا: میرے جد امجد محمد مصطفیٰ کا دین قبول کرو۔ راہب نے کہا: «أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اللَّهِ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔ امام حسین علیہ السلام نے اس کی شفاعت پر رضامندی ظاہر کی۔ جب صبح ہوئی تو اموی گماشتوں نے اس راہب سے درہموں کے ساتھ وہ سرمبارک لے لیا۔ جب وہ وادی میں پہنچے تو دیکھا کہ درہم پتھر بن چکے ہیں۔(بحارالأنوار، ج45، ص303)
امام زمانہ علیہ السلام نے اپنی زیارت میں امام حسین علیہ السلام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:السَّلَامُ عَلَی شَهِیدِ الشُّهَدَاءِ۔ شہیدوں کے شہید پر سلام ہو ۔
لہٰذا جب قیامت کا دن آئے گا تو تمام شہداء سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کا ساتھی بننے کی تمنا کریں گے۔
جناب ام البنین امام حسین علیہ السلام کے مقام سے واقف تھیں۔ جب بشیر مدینہ منورہ آئے اور ام البنین کو اپنے چار بیٹوں کی شہادت کی خبر سنائی تو ام البنین نے کہا: اَخبِرنِی عَن اَبِی عَبدِاللّهِ الحُسَینِ، اَولادِی وَ مَن تَحتَ الخَضراءِ کُلُّهُم فِدا لِاَبِی عَبدِاللّهِ الحُسَین۔مجھے حسین کے بارے میں بتا، میرے بچے اور نیلے آسمان کے نیچے سب کچھ ابو عبداللہ الحسین علیہ السلام پر قربان ہوں۔
بشیر نے کہا: انہوں نے حسین علیہ السلام کو بھی قتل کر دیا۔ ام البنین نے روتی ہوئی اور مایوس آواز کے ساتھ کہا :قَد قَطَّعتَ نِیاطَ قَلبِی۔ اے بشیر، اس خبر سے تو نے میرے دل کے بندھن کو کاٹ دیا۔ ) ام البنینؓ کا یہ رویہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ ایمان کے کمال کے درجے پر فائز تھیں۔ اس لیے وہ اپنے چاروں بچوں کی شہادت کو امامت کے منصب کے سامنے آسان اور چھوٹی سمجھتی تھیں۔(منتهی الامال، ص823)
امام حسین علیہ السلام کو مظلوم اور شہید کیوں کہا جاتا ہے؟ کیونکہ یزید، عمر سعد اور شمر نے رسول اللہﷺاور آپ کی آل کے ساتھ ظلم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

پانچواں اقتباس :السَّلَامُ عَلَی أَسِیرِ الْکُرُبَاتِ وَ قَتِیلِ الْعَبَرَاتِ۔

سلام ہو غموں اور آفتوں کے قیدی اور آنسوؤں اور گریہ و زاری کے مقتول پر۔
امام باقر علیہ السلام سے روایت ہے: جب امام حسین علیہ السلام رسول خدا ﷺکے پاس آتے تو پیغمبر ان سے لپٹ جاتے، پھر امیر المومنین (ع) سے فرماتے تھے : اسے لے لیں اور رکھ لیں۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ حسین کو پکڑ کر مسلسل بوسہ دیتے اور روتے تھے ۔ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :نانا جان آپ کیوں رو رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا: اے میرے پیارے بیٹے، میں تیرے جسم پر تلواروں کے مقام کو چومتا ہوں اور روتا ہوں۔(بحار الأنوار، ج 44، ص262.)
امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، علی، فاطمہ، اور امام حسن علیہم السلام کا رونا:
سعید بن مسیب، امام سجاد علیہ السلام کے اصحاب میں سے ایک تھے۔وہ کہتے ہیں: امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے ایک سال بعد میں حج کے لیے مکہ مکرمہ گیا۔ طواف کے دوران میں نے ایک شخص کو دیکھا جس کے ہاتھ کٹے ہوئے تھے اور چہرہ کالا تھا۔ وہ خانہ کعبہ کے پردے کو تھامے یوں دعا کر رہا تھا : اے کعبہ کے معبود! مجھے معاف کر کیونکہ میں نہیں مانتا کہ تو مجھے بخش دے گا۔۔۔ کیونکہ میرا گناہ بہت بھاری ہے۔ سعید کہتے ہیں: میں اور ایک گروہ اس کے پاس جمع ہوئے اور اس سے کہا: تم پر افسوس، اگر تو شیطان ہے تو بھی تیرے لیے یہ مناسب نہیں کہ خدا کی رحمت سے مایوس ہو۔ تو کون ہے اور تیرا گناہ کیا ہے؟ اس نے روتے ہوئے کہا: میں اپنے اور اپنے گناہ کو جانتا ہوں۔ میں نے کہا :اپنا گناہ بتاؤ کیا ہے؟ اس نے کہا: میں امام حسین علیہ السلام کے اونٹوں کا ساربان تھا۔ ہم آپ کے ساتھ مدینہ سے عراق آئے۔ مجھے خبر تھی کہ آپ کے لباس کا کمر بند(7) قیمتی ہے۔ میری خواہش تھی کہ ایک دن وہ مہنگی ازار مجھے مل جائے یہاں تک کہ ہم کربلا پہنچ گئے اور امام حسین علیہ السلام کی شہادت ہوئی ۔(8) میں نے اپنے آپ کو چھپا لیا تھا، یہاں تک کہ مجھے امام حسین علیہ السلام کا جنازہ ملا۔ ۔۔۔ میں نے فیصلہ کیا کہ آپ کا کمربند نکال لوں۔۔۔۔۔۔ لیکن امام نے اس میں کئی گرہیں لگائی ہوئی تھیں۔ میں نے ان میں سے ایک گرہ کھول لی۔ اچانک امام حسین علیہ السلام کا دایاں ہاتھ ہل گیا اور اس ہاتھ نے لباس کے اس حصے کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔وہاں مجھے ایک ٹوٹی ہوئی تلوار ملی۔ میں نے امام کا دایاں ہاتھ کلائی سے کاٹ لیا۔پھر میں نے گرہ کھولنے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا۔ اچانک امام علیہ السلام کا بایاں ہاتھ ہل گیا اور لباس کے اس حصے کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔ میں نے اسے بھی کاٹ دیا۔ پھر میں نے کمر بند نکالنے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ اچانک میں نے دیکھا کہ زمین لرزنے لگی اورآسمان ہلنے لگا ۔پھر اچانک میں نے رونے دھونے کی کربناک آوز سنی جو کہہ رہی تھی:وَا ابْنَاهْ وَا مَقْتُولَاهْ وَا ذَبِیحَاهْ وَا حُسَیْنَاهْ وَا غَرِیبَاهْ یَا بُنَیَّ! قَتَلُوکَ وَ مَا عَرَفُوکَ وَ مِنْ شُرْبِ الْمَاءِ مَنَعُوکَ۔اے میرے نیٹے!ہائے اس مقتول اور سر کٹے ہوئے انسان پر!ہائے حسین !ہائے میرےپردیسی!میرے بیٹے! انہوں نے تجھے مار ڈالا اور تیری حیثیت کو نہ پہچانا۔انہوں نے ایک گھونٹ پانی بھی نہیں دیا۔

چھٹا اقتباس :اللَّهُمَّ إِنِّی أَشْهَدُ أَنَّهُ وَلِیُّکَ وَ ابْنُ وَلِیِّکَ وَ صَفِیُّکَ وَ ابْنُ صَفِیِّک۔

اے خدا میں گواہی دیتا ہوں کہ حسین علیہ السلام تیراولی اور تیرے ولی کا بیٹا ہے ۔ وہ تیرا برگزیدہ بندہ اور تیرے برگزیدہ بندے کا بیٹا ہے۔
یہاں پر امام حسین علیہ السلام کا زائر خود گواہی دے کر اعلان کرتا ہے کہ مجھے امام حسین علیہ السلام اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام کا علم ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجۃ الوداع میں اعلان کیا تھا۔ یعنی میں آپ کے حق سے باخبر ہوں اور مجھے آپ کے مقام کا علم ہے۔
"سلام ہو آپ پر اور خدا کے اولیا پر۔" میں ان سب کی گواہی دیتا ہوں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ امام حسین علیہ السلام آیت ولایت کا مصداق ہیں۔
پس زائر امام حسین اپنی گواہی کے ساتھ امام حسین اور باقی ائمہ معصومین علیہم السلام کی ولایت کا اعلان کرتا ہے کیونکہ ولایت کے بغیر عمل قبول نہیں ہوتا اور وہ شخص مومن نہیں مانا جائے گا جو ولایت پر ایمان نہ رکھتا ہو۔ ولایت کا مسئلہ بہت اہم ہے اور اسلام کی بنیادوں میں شامل ہے۔
نماز دین کی اہم ترین فروعات میں شامل ہے۔ لیکن بعض حالات میں کسی حد تک نماز میں چھوٹ ملتی ہے۔مثلاً حائض عورت کی نماز چھوٹ جاتی ہے جس کی قضا بھی لازم نہیں ہے۔اسی طرح معذور آدمی بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے۔ حج ، زکات اور روزہ بھی بعض حالات میں فرض نہیں ہیں۔ مسئلہ صرف اہل بیت علیہم السلام کی ولایت کا ہے جس سے تمسک ہر حال میں واجب ہے۔(الکافی، ج2، ص75.) اس میں کسی کے لیے کوئی رعایت نہیں دی گئی ہے۔ جب تک انسان زندہ ہے یہ فرض ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .