حوزہ نیوز ایجنسی کے نمائندہ سے گفتگو میں مدیر مدرسہ علمیہ فاطمہ معصومہ دلیجان محترمہ رحیمی قنبری نے امام رضا علیہ السلام کی شہادت پر تعزیت پیش کرتے ہوئے کہا: مأمون عباسی کی دعوت کی جڑیں گہری سیاسی و مذہبی تھیں۔
انہوں نے مزید کہا: مأمون ابتدا میں امام کے رفیع مقام اور اعتبار سے اپنی حکومت کو مشروعیت بخشنے کا ارادہ رکھتا تھا لیکن یہ پالیسی زیادہ دیر نہ چل سکی اور امام رضا علیہ السلام کے جسمانی خاتمے کی طرف موڑ لی گئی۔
مدرسہ علمیہ فاطمہ معصومہ دلیجان کی مدیر نے کہا: مأمون کا امام کی معنوی نفوذ اور قدرت سے خوف ہی اس اچانک تبدیلی کی اصل وجہ تھی جو اس بات کی علامت ہے کہ اس دور میں مخالف آرا کو برداشت نہیں کیا جاتا تھا۔
انہوں نے کہا: اس واقعے کا ایک تلخ پہلو درباری علما اور حکومت کے ہم فکر فکری دھاروں کا کردار ہے۔ یہ افراد، جن کے ذاتی اور سیاسی مفادات امام کو کمزور کرنے میں تھے، براہ راست یا بالواسطہ طور پر امام کی شہادت کی سازش میں شریک ہوئے۔
محترمہ خانم قنبری نے کہا: امام رضا علیہ السلام کی مسمومیت کی سازش عصر حاضر کے سیاسی قتلوں سے حیران کن مشابہت رکھتی ہے، جہاں اقتدار کے لیے خطرہ سمجھے جانے والے شخصیات کو ختم کر دیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا: امام کی شہادت کے بعد مأمون نے انکار اور پردہ پوشی کی پالیسی اپنائی تاکہ معاشرتی ردعمل سے بچ سکے۔ یہ طرز عمل آج کے نظاموں میں بھی دیکھا جا سکتا ہے، جہاں ظالم حکومتیں حقیقت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتی ہیں۔
مدرسہ علمیہ فاطمہ معصومہ دلیجان کی مدیر نے مزید کہا: امام رضا علیہ السلام کی شہادت صرف ظلم و سازش کی کہانی نہیں بلکہ عصر حاضر کے لیے نصیحتوں اور نمونوں سے بھری ہوئی ہے۔ ان میں امام رضا علیہ السلام کے دیگر ادیان کے دانشوروں سے مناظرے بھی شامل ہیں جو آج کے بین المذاہب مکالمے کے لیے ایک بے نظیر نمونہ ہیں۔ یہ مناظرات ہمیں دوسروں کے عقائد کے احترام اور علمی و اخلاقی فضا میں تبادلۂ نظر کی اہمیت سکھاتے ہیں۔









آپ کا تبصرہ