حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،امام جمعہ مسجد بقیۃ اللہ ڈیفنس کراچی و شیعہ علماء کونسل پاکستان کے رہنما علامہ شبیر میثمی نے کراچی میں اپنے ایک خطاب میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ امامت، اللہ سبحانہ تعالیٰ کی طرف سے ایک منصب ہے جو خاص، چنے ہوئے افراد کو دیا جاتا ہے۔ جس طرح انبیاء علیہم السلام کی selection میں الیکشن نہیں ہے، اسی طرح ائمہ علیہم السلام کی selection میں بھی الیکشن نہیں ہے۔ یہ ایک الٰہی منصب ہے جس کے الٰہی ہونے پر کئی دلیلیں موجود ہیں۔ ان میں سے ایک مختصر دلیل قرآن مجید سے آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللہَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ۰ۚ
اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو، رسول کی اطاعت کرو اور تم میں سے جنہیں اولی الامر بنایا گیا ہے، ان کی اطاعت کرو۔ (سورہ نساء ۴، آیہ ۵۹)
یہاں پر مکتب اہل سنت اس نظریہ کے قائل ہیں کہ جس کو بھی طاقتور بنا دیا جائے وہ اولی الامر ہے۔
ہم یہاں پر ایک سوال کرتے ہیں کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء بھیجے تاکہ ہر زمانے میں اللہ تعالیٰ کی حجت قائم رہے۔ یہ قرآن مجید کا اصول ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا ﴿الإسراء: ١٥﴾ جب تک ہم رسول (بمعنی حجت) انسانوں تک نہ پہنچائیں تب تک ہم اپنا عذاب نہیں بھیجتے۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء اللہ کی حجت بن کر تشریف لائے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہر زمانے میں اللہ کی حجت تھی۔ پھر سوال یہ بنتا ہے کہ اللہ کے حبیب کے جانے کے بعد، جو دین کامل ہوا، نعمتیں پوری ہوئیں، جب ہمیں حجت کی زیادہ ضرورت تھی، تو اللہ تعالیٰ نے زمین والوں کو حجت سے کیوں محروم کردیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اپنی حجت سے محروم نہیں کیا، بلکہ اپنی حجت کو قائم رکھا۔
انہوں نے کہا کہ حضور اکرم نے باقاعدہ طور پر اعلان فرمایا کہ میرے بعد 12 خلیفہ ہوں گے، جو سب کے سب قریش میں سے ہوں گے۔ غدیر خم کے موقع پر باقاعدہ طور پر مولائے کائنات کی خلافت اور ولایت کا اعلان کردیا گیا۔پس ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء بھیجے گئے، اس کے بعد اللہ سبحانہ نے انسان کو ہدایت کے بغیر نہیں چھوڑا۔ یہ امامت کا سلسلہ ہمارا بنایا ہوا نہیں ہے بلکہ یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اب اگر کسی کو نہیں ماننا ہے تو نہ ماننے والے تو اللہ کو بھی نہیں مانتے ہیں۔ نہ ماننے والے انبیاء اور اماموں کو بھی نہیں مانتے ہیں۔ یہ ان کا مسئلہ ہے۔ ہم اپنی بات کرتے ہیں کہ آیا ہم امامت کو قبول کرتے ہیں؟ جی ہاں، ہم امامت کو قبول کرتے ہیں۔ آیا ہم اماموں کو مانتے ہیں؟ جی ہاں، ہم اماموں کو مانتے ہیں۔ لیکن ہماری زندگی اماموں کو ماننے والوں کی زندگی نظر نہیں آتیں۔ سخت ہے بات میری، لیکن میں اس مرحلے سے گزروں گا۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ اگر ہم واقعاً اہل بیت علیہم السلام کے چاہنے والے ہیں، ماننے والے ہیں تو ہماری زندگی بھی اہلبیت علیہم السلام کے مطابق ہونا چاہئے۔