حوزه نیوز ایجنسی| بانگِ لَا تَخَفْ: ( لَا تَخَفْ) عربی زبان کی ترکیب ہے، جس کا مطلب ہے: خوف زدہ نہ ہو، ڈرو مت، ڈرنا نہیں، یہ غالبا سورہ طہ کی آیت نمبر (68) کی طرف اشارہ ہے، جس میں حضرتِ حق سبحانہ و تعالی نے موسی کو خطاب کرکے کہا: (اے موسی) ڈرنا مت تم ہی غالب آو گے۔
اس کائنات میں کچھ قوانین حیاتِ بشر کے آغاز سے جاری و ساری ہیں، اور تا قیامِ قیامت مستمر رہیں گے، ان کو سُنَنِ الہیہ کے نام سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ ان الہی قوانین میں سے ایک قانون یہ ہے، کہ ظالم، مستکبر اور جابر افراد کا انجام ذلت و خواری، رسوائی اور نابودی ہے، اور اسی طرح سنتِ پروردگار ہے کہ وہ ہر دور میں ظلم کے خلاف نکلنے والوں کی مدد کرتا ہے، اور میدانِ جہاد میں انہیں تنہا نہیں چھوڑتا۔ اور یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ کتابِ حکیم نے اس بات کو صراحت کے ساتھ ذکر کیا ہے، کہ ان الہی سنتوں میں رد و بدل ممکن نہیں۔
مزید وضاحت کے لئے صرف اتنا عرض ہے کہ جب ظلم کے خلاف مزاحمت سُنتِ پروردگار ٹھہری، تو تاریخ نے دیکھا، کہ وہ صالح بندے جنہیں اللہ نے بشریت کی ہدایت کے لئے بھیجا تھا، وہ ہر زمانے میں ظلم و ستم کے خلاف برسرپیکار رہے، اور اللہ نے ان کی قدم بہ قدم مدد کی، یہاں تک کہ انہی کے ہاتھوں تاریخ کے بڑے بڑے جابر اور مستکبر اپنے عبرت ناک انجام تک پہنچے، کسی کو نیل کے بے رحم موجوں نے نگل لیا، تو کسی کو مچھر نے ذلیل و خوار کردیا، اور کوئی زمین الٹنے سے ہلاکت کے پنجوں میں دم توڑ گیا، اس سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے، کہ ظالموں کی نابودی اور ان کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کی نصرت اور تائید سنتِ الہی ہے، جو ہمیشہ سے جاری ہے اور ہمیشہ رہے گا۔
اسی الہی سنت کو ایک دلنشین پیرائے میں بیان کرتے ہوئے شاعرِ فطرت علامہ محمد اقبال (رحمہ اللہ) کہتے ہیں، کہ اے امتِ مسلمہ کے غیرت مند فرزندو! اگر تم آج بھی کلیم اللہ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے، ظلم و ستم کے خلاف معرکہ آزما ہوتے ہو، تو یقین رکھنا، آج بھی تمہیں درختِ طور یہ کہتے ہوئے سنائی دے گا، کہ اے مسلمانو! ڈرنا مت، خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں، کیونکہ اللہ تمہیں دیکھ بھی رہا ہے، اور سن بھی رہا ہے، آج بھی کوہِ طور یہ کہتے ہوئے سنائی دے گا کہ جیسے فرعون کے مقابلے میں اللہ نے حضرت موسی (علیہ السلام) کی مدد کی تھی، بالکل اسی طرح آج بھی اللہ تمہاری مدد کرے گا، لیکن شرط یہ ہے کہ مثل کلیم معرکہ آزما ہونا ہے۔
آج اگر امتِ مسلمہ پریشانی کا شکار ہے، اور مسلمان انتہائی کسم پرسی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں، اور دنیا کے کسی کونے میں اسلامی معاشرے پر زوال نے ڈیرے ڈال دیے ہیں، تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اللہ نے اپنے بندوں کی مدد کرنا چھوڑ دی ہے، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے، کہ امتِ مسلمہ نے انبیاءِ کرام (علیہم السلام) کے رستے کو چھوڑ دیا ہے، مسلمانوں کا اللہ کی ذات پر سے بھروسہ اور اعتماد ختم ہو گیا ہے، اور آج کے مسلمان ذلیل ترین لوگوں کی غلامی کو اپنے لئے فخر اور اعزاز سمجھتے ہیں۔ اسی لئے اللہ بھی ایسے لوگوں کی مدد نہیں کرتا، بلکہ انہیں اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔ لہذا اگر چاہتے ہو، کہ ہر حال میں مددِ خدا شامل حال رہے، تو کلیم اللہ کی سنت پر عمل کو اپنا نصب العین بنادو، اور اگر ایسا کرو گے تو آج کا فرعون بھی ویسے ہی دریا میں غرق ہوگا، جیسے جناب موسی (علیہ السلام) کے زمانے کا فرعون غرق ہوا تھا۔
تحریر:محمد اشفاق