تحریر: ڈاکٹر شجاعت حسین
حوزہ نیوز ایجنسی | تلاوت کلام پاک، نماز ادا کرنے اورمختلف دعائیں پڑھنے کے لیے علمٍ تجوید، اس کی اہمیت، ضرورت و عظمت سے آشنائی لازمی ہے۔
تجوید کے معنی بہتر اور خوبصورت بنانا ہے۔ تجوید اس علم کا نام ہے جس سے قرآن پاک کے الفاظ اور حروف کی بہتر سے بہتر ادائیگی اور آیات و کلمات پر وقف کے حالات معلوم ہوتے ہیں۔ علمٍ تجوید کی سب سے زیادہ اہمیت یہ ہے کہ دنیا کی ہر زبان اپنی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بھی رکھتی ہے کہ اس کا طرز و لہجہ دوسری زبانوں سے مختلف ہوتا ہے اور یہی لہجہ اس زبان کی شیرنی، چاشنی اور اس کی لطافت کا پتہ دیتا ہے۔ قرآن کریم صرف دستور حیات ہی نہیں بلکہ قرآن کریم ایک معجزہ بھی ہے۔ وہ قدم قدم پر اپنی تلاوت کی دعوت دیتا ہے۔ اپنی فصاحت و بلاغت کا اعلان بھی کرتا ہے کہ اس کے محاسن پر غور کریں اور اس کی خوبیوں کو عالم آشکار بھی کریں۔
تجوید کی اہمیت و عظمت اس بات سے اندازہ لگائیں کہ اس کہ بغیر نماز کی صحت مشکل ہے اور نماز کی قبولیت پر سارے اعمال کی قبولیت کا دارومدار ہے۔ اب اگر کوئی حافظ، حاجی، نمازی، پیش نماز تجوید کے ضروری قواعد کو نظر انداز کر دیتا ہے تو قراتٍ قرآن کی طرح نماز کو برباد کرتا ہے اور جو نماز برباد کرتا ہے، اس کے سارے اعمال کی قبولیت پر سوالیہ نشان، شک و شبہ ہوتاہے۔ یہی علمٍ تجوید کی عظمت و برتری کی بہترین دلیل ہے۔
حروف، مخارج، اس کی ادائیگی کی جگہ جیسے جوف دہن، حلق، زبان، ہونٹ اور ناک، حروف مد، حروف لین، حروف شمسی، حروف قمری، حروف قلقلہ، حروف استعلا ٕ، حروف یر ملون، اس کے علاوہ ادغام، اظہار، قلب اور اخفاء بھی جاننا ہوگا کہ آخر کون حرف کو منھ کے کس مقام سے اور کیسے پڑھنا اور بولنا ہے۔ بعد ازاں، ادغام و مد کی مختلف اقسام، تفخیم و وقف کی مختلف صورتیں، وصل، رموز اوقاف قرآن، کیفیت حرکات، اشباع اور امالہ وغیرہ جاننا ضروری ہے۔ کوئی صحافی، ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر، پرنسپل، شاعر، ذاکر، مصنف، محقق کو اپنی قابلیت پر کتنا ہی فخر و غرور کیوں نہ ہو، علماء کرام اور قاری صاحبان سے رجوع کریں کہ آیا ان کی نماز بغیر تجوید کے قابل قبول ہے یا نہیں؟
قرآن مجید کیا ہے؟ خالق کائنات نے اپنے کلام کے تعارف کے لیے جس الفاظ کا استعمال فرمایا ہے وہ یہ ہیں: یہ کتاب، نور، قرآن، آیاتٍ بننیات، تنزیل، قول، ذکر، ہدایت، شفا ٕ اور ہدٰی لیکن صاحبان ایمان اور علم والوں کے لیے۔ اس کا ذکر سورۃ البقرہ، المائیدہ، الحجر، الاسرا ٕ، مریم، طہٰ، الفرقان، العنکبوت، یٰسین اور الحاقہ کے اور بھی دوسرے سورۃ میں ذکر ہے۔
یہ نہ اصول و معروف کے اعتبار سے دنیا کی کسی کتاب سے ہمرنگ ہے اور درحقیقت یہی بات اس امر کا ثبوت ہے کہ قرآن کسی بشر کا کلام نہیں ہے۔ یہ کتاب ہے لیکن انسانی اصطلاح میں نہیں، قرآنی اصطلاح میں۔ یہ مجموعہ ہے لیکن انسانی تالیف و ترتیب کے لحاظ سے نہیں بلکہ سماوی ترتیب و تالیف کے اعتبار سے۔
حضور اکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ "قرآن میں ایک ساعت غور و فکر کرنا ایک عابد کی ستر سال کی عبادت سے افضل۔"
علامہ طبرسی تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: "جو قرآن والے ہیں وہی اللہ والے ہیں، بلکہ اُن کا شمار اللہ کے خاص منظورٍ نظر بندوں میں ہے۔"
امیرالمومنین حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام نے فرمایا: "تمہیں کتابٍ خدا پر عمل کرنا چاہیے اس لیے کہ وہ ایک مضبوط رسی ہے، روشن اور واضح نور، نفع بخش شٍفا ٕ، پیاس بجھانے والی سیرابی، تمسک کرنے والے کے لیے سامان حفاظت اور اس سے وابستہ رہنے والے کے لیے نجات ہے۔"
حضرت محمد مصطفٰیؐ نے فرمایا کہ "جو شخص خدا سے کلام کرنے کا متمنی ہو وہ نماز پڑھے اور یہ چاہتا ہے کہ نیکوں کی زندگی اور شہید کی موت اُسے نصیب ہو اور اُس دن اُسے شاندار کامیابی ملے جس دن حسرت کے سوا کچھ نہ ہوگا اور اسے قیامت کی گرمی کے موقع پر سایہ نصیب، اور گمراہی کے موقع پر ہدایت اُس کے وہم سے لپٹی ہو پس اسے چاہیے کہ وہ قرآن مجید کا درس حاصل کرے، اس کی تعلیم سے بہرہ ور ہو۔" (جامع الاخبار، صحفہ ۵۱)
شیخ صدوق تحریر فرماتے ہیں کہ حضور اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: "جو شخص اپنے بیٹے کو قرآن پڑھائے یا پڑھوائے تو اس نے گویا دس ہزار حج ادا کئے، دس ہزار عمرہ ادا کیے، دس ہزار غلام آزاد کیے، دس ہزار جہاد کیے، دس ہزار بھوکوں کو کھانا کھلایا، دس ہزار مسکینوں کو کھانا دیا۔۔۔۔۔اور اسے وہ تمام کرامتیں نصیب ہوں گی جن کی تمنا کی جا سکتی ہے۔" (جامع الاخبار، صفحہ 60)
قرآن کریم ایک شب، لیلتہ القدر میں نازل ہوا یا ۲۳ سالوں میں، مکہ یا مدینہ میں، گھر میں یا مسجد میں، غار میں یا میدان جنگ میں، قلب پر یا جبرئیل امین لیکر پروردگار کے حبیبؐ کو وحی کے ذریعے دیا۔ آخر ام الکتاب کا وارث کون ہے؟ جب یہ کتاب قیامت تک رہنے اور باقی رہنے والی ہے تو کوئی تو ہوگا جسے خالق کائنات نے وارث قرار دیا ہوگا۔ آئیے اس سوال کا جواب قرآن حکیم میں تلاش کی جائے۔ سورۃ نمبر ۳۵، فاطر کی آیت مبارکہ نمبر ۳۲ کی تلاوت کرتا ہوں جہاں ارشاد باری ہے "پھر ہم نے اس کتاب کا وارث ان افراد کو قرار دیا جنہیں اپنے بندوں میں سے انتخاب کر لیا کہ ان میں سے بعض اپنے نفس پر ظلم کرنے والے ہیں اور بعض اعتدال پسند ہیں اور بعض خدا کی اجازت سے نیکیوں کی طرف سبقت کرنے والے ہیں اور درحقیقت یہی بہت بڑا فضل و شرف ہے۔" حقیقت میں وارثان نے کتاب وہ معصومین علیہم السلام ہیں جنہیں پروردگار نے علم و فضل اور طہارت و تقویٰ کی بنیاد پر منتخب قرار دیا ہے اور انہیں کو پیغمبر اسلامؐ نے ثقلین کی ایک فرد بنا کر چھوڑا ہے۔
سورہ یٰسین وہ مبارک سورہ ہے جسے روایات میں قلب قرآن سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ بھی کیا شان نزول ہے کہ سورہ یٰسین کی بارہویں آیت مبارکہ میں ارشاد ہو رہا ہے "اور ہم نے ہر شے کو ایک روشن امام میں جمع کر دیا ہے۔" روایات میں امام مبین سے مراد آئمہ طاہرینؑ کی ذوات مقدسہ کو لیا گیا ہے جنہیں پروردگار عالم نے اپنے علوم کا مخزن اور مشیت کا محل و مرکز قرار دیا ہے۔
قرآن کی عظمت کا کیا کہنا کہ قرآن مجید اللہ کا کلام ہے۔ یہ وہ واحد کتاب ہےجو آج بھی اپنی شکل میں موجود ہے اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری خود پروردگار نے لی ہے۔ یہ علوم و فنون کا مجموعہ ہے، منبعٔ علم و دانش ہے، خیر کا شر چشمہ ہے۔ مسلمانوں نے جب سے قرآن پاک پر عمل کرنا ترک کیا ہےتب سے ذلیل و رسوا ہو رہے ہیں۔ آج، اب عہد کریں اور قرآن حکیم میں ہدایت و احکامات کے مطابق زندگی گزارنے کا فیصلہ و کوشش کریں۔ ہندوستان کے سابق صدر محترم، ڈاکٹر شنکر دیال شرما کی قرآن کریم پر لکھی شاہکار نظم کے چند مصرعے ملاحظہ فرمائیں:
تسخیر کائنات کا درس دینے آئی تھی
صرف مدرسوں کا نصاب بنا دیا
مردہ قوموں کو زندہ کرنے آئی تھی
مردوں کو بخشش پر لگا دیا