۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
آیت اللہ حافظ ریاض نجفی

حوزہ/ خطبہ جمعہ میں آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی نے کہا قرآن و حدیث میں نیکی و اچھائی کے کاموں کو جلد انجام دینے کی تاکید کی گئی ہے تاکہ شیطان یا کوئی انسان اس میں رکاوٹ نہ ڈالے۔ نیکی اور اچھائی کی توفیق غنیمت ہوتی ہے اسے ضائع کر دیا جائے تو شاید کبھی دوبارہ موقع نہ ملے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، علی مسجد ماڈل ٹاؤن لاہور میں خطبہ جمعہ میں سربراہ وفاق المدارس الشیعہ پاکستان آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی نے فرمایا کہ قرآن و حدیث میں نیکی و اچھائی کے کاموں کو جلد انجام دینے کی تاکید کی گئی ہے تاکہ شیطان یا کوئی انسان اس میں رکاوٹ نہ ڈالے۔ نیکی اور اچھائی کی توفیق غنیمت ہوتی ہے اسے ضائع کر دیا جائے تو شاید کبھی دوبارہ موقع نہ ملے۔ اچھائی اور نیکی کی توفیق اللہ کی طرف سے ایک فضل ہوتاہے۔اللہ کی کتاب قرآن کے وارث بھی یہی لوگ ہوتے ہیں۔اگر چہ قرآن کے حقیقی وارث رسول ِ ؐخدا اور ان کی اہلبیتؑ ہیں لیکن جو جس قدر قرآن پر عمل کرے گا وہ بھی ایک حد تک قرآن کا وارث ہوگا۔رسول ؐ ِ خدا نے رحلت سے 6ماہ قبل اپنے حقیقی وارثوں یعنی اہلبیتؑ کا تعارف کرا دیا تھا اور فرمایا تھا کہ تم میں 2 گراں قدر چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں ایک قرآن اور دوسرے اہلبیت ؑ، جب تک ان سے متمسک رہو گے ہر گز گمراہ نہ ہوگے۔یہ وہی اہلبیت ؑ ہیں جنہیں آپ نے اصحاب ِ کساء یعنی ”چادر والے“کے روپ میں متعارف کروایا تھا پھر اس کے بعد مباہلہ کے تاریخی موقع پر ان ہستیوں کو روشناس کرایا تھا کہ اہلبیت فقط یہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دین اورقرآن پر عمل کرنے کے اگرچہ دنیا میں بھی فوائد ہیں لیکن اس کا اصل فائدہ جنت کا حصول ہے۔جہاں بے بہا نعمات ہوں گی۔ دنیا میں جو چیزیں ناجائز تھی وہاں حلال ہوں گی جیسے ریشم کا لباس وغیرہ۔ جنتی لوگ شکر ادا کریں گے کہ اللہ نے ہم سے غم و حزن دور کر دیا اور ہمیشہ رہنے والے محلات عطا فرمائے۔وہاں انبیاء ؑ، اولیاؑ اور اہل ایمان ایک دوسرے کے ہاں جائیں گے، باہمی رابطے اور ملاقاتیں ہوں گی۔جنت جانے کیلئے صحیح راستے پر چلنا ضروری ہے۔

امام جمعہ جامع علی مسجد جامعتہ المنتظر لاہور نے کہا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہواہم نے انسان کو صحیح راستہ دکھا دیا اب اس کی مرضی اس پر چل کر کامیاب ہو یا انحراف و کفر کے ذریعہ بدبخت و نامراد بنے۔جہنم جانے والے بدقسمت لوگ ہمیشہ عذاب میں رہیں گے جہاں انہیں موت بھی نہ آئے گی۔جسم کی جلد ایک بار جلنے کے بعد دوبارہ پیدا کر دی جائے گی۔وہاں جہنمی یہ خواہش کریں گے کہ انہیں دوبارہ دنیا کی زندگی دی جائے تاکہ وہ اچھے عمل انجام دے سکیں تو جواب ملے گا کیا تمہیں پہلے ایک عمر، زندگی عطا نہیں کی تھی؟ کیا ہمارے انبیاؑ و اولیاؑ تمہارے پاس نہ آئے تھے؟اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس زندگی میں بھی کافی عمر عطا فرمائی ہے اگر درست طریقہ سے زندگی گزاری جائے یعنی غذا، آرام، کام، نظم و ضبط کے مطابق ہوں تو اب بھی انسان 100 سال سے زائد کی صحت مند زندگی گزار سکتا ہے جس میں دینی مقررات کی پابندی کے ساتھ غذا میں پھل، سبزیاں اور زیتون وغیرہ کا استعمال کرنا ضروری ہے۔اس دور میں برگر اور شوارما کے نام پر ناخالص غذائیں بیماریوں کا سبب ہیں۔برائلر جیسی دیسی مرغیاں بھی اسی کا حصہ ہیں۔ ی

مزید فرمایا کہ من کے بادشاہ نے جب حضور ؐ کی خدمت میں ایک وفد بھیجا تو اس میں ایک حکیم بھی تھا جس نے لوگوں کے علاج کی خواہش کی تو حضور ؐ نے فرمایا کہ ہمارے لوگ بیمار ہی نہیں ہوتے کیونکہ ان کی غذا سادہ اور مختصر ہوتی ہے۔ کم کھاتے ہیں اور چبا چبا کر کھاتے ہیں۔لہٰذا خالص اور سادہ غذاہی صحت و طول عمر کی ضامن ہے۔کولڈ ڈرنکس، بسکٹ اور دیگر مصنوعی غذائیں چونکہ ناخالص ہوتی ہیں اس لیے ان سے اجتناب کرنا چاہیے۔ہمیں چاہیے کہ اپنی غذا کی طرح اپنی نیکیوں اور عبادات کو بھی خالص رکھیں، ذرہ ذرہ کا حساب ہونا ہے۔دو فرشتوں کے علاوہ زمین، فضاء بھی ہمارے اعمال کو ریکارڈ کرتی ہے۔ ہمارے اپنے اعضاو جوارح بھی ہمارے کاموں کے گواہ ہیں۔ سب سے بڑا گواہ خود اللہ ہے جو ہماری سوچ، فکر اور اعمال کو ہر وقت دیکھ رہا ہے۔ہمارے اعمال ہمارے وقت کے امامؑ کی خدمت میں بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ اعمال اچھے ہوں تو وہ خوش ہوتے ہیں اور برے ہوں تو انہیں دکھ پہنچتا ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .