۷ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 26, 2024
بهشت و جهنم

حوزہ/قرآن مجید سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ جنت اور جہنم ایک دوسرے کے قریب ہیں، اتنا قریب کہ جنتی اور جہنمی ایک دوسرے سے بات کر سکتے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی معاشرے میں سوالات اور شکوک و شبہات کا جواب دینا مدرسہ اور مذہبی مراکز کا ایک فریضہ ہے، اسی لئے حوزہ نیوز مختلف شماروں میں ان سوالات اور جوابات کو  " مرکز برای مطالعات اور شبہات کے جوابات حوزہ علمیہ قم" سے حاصل کرکے قارئین کی خدمت میں پیش کرے گا۔

 - سؤال

کیا جنت اور دوزخ کی سرزمین ایک دوسرے کے قریب ہے یا ان میں سے ہر ایک مختلف سیارے پر ہیں؟

- جواب
اس سوال کے جواب میں یہ کہنا چاہئے کہ قرآن مجید سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ جنت اور جہنم ایک دوسرے کے قریب ہیں، اتنا قریب کہ جنتی اور جہنمی ایک دوسرے سے بات کر سکتے ہیں، اس سلسلے میں کچھ آیتیں پیش کی جا سکتی ہیں:
     
1۔ اہل جنت اہل جہنم کو پکاریں گے: "اہل جنت اہل جہنم کو پکارتے ہیں کہ ہم نے وہی پایا جو ہمارے پروردگار نے ہم سے وعدہ کیا تھا۔ کیا تم نے بھی اپنے رب سے کئے ہوئے وعدے کو حق پایا؟" اس وقت نداء دینے والا انکے درمیان نداء دیگا: "ظالموں پر لعنت ہو۔" [1] مندرجہ بالا آیات کا اس طرح استعمال کیا گیا ہے کہ جنتی اور جہنمی (اس قدر قریب) ہیں کہ وہ ایک دوسرے سے بات کرسکتے ہیں۔
     
۲. جنت الفردوس والوں کا اہل جہنم سے انٹرویو: "وہ (اصحاب یمین) جنت کے باغات میں ہیں ، پوچھ رہے ہیں کہ مجرموں (جہنمیوں) کس چیز نے تمہیں جہنم کی طرف کھینچا ہے؟ وہ کہتے ہیں: ہم نمازیوں میں شامل نہیں تھے، اور ہم نے غریبوں کو کھانا کھلایا نہیں تھا، اور ہم جھوٹے (اہل باطل) کے مستقل ساتھی اور صحابی تھے ... [2] مذکورہ بالا آیات سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اہل بہشت اپنے عالم سے جہنمیوں کا مشاہدہ کرتے ہوئے انسے گفتگو کر سکتے ہیں [3]مذکورہ آیات کے ذیل میں بہت سی روایتیں نقل کی گئی ہیں، جو مذکورہ بالا مکالمے کی مزید جزئیات کے ساتھ تصدیق کرتی ہیں۔ [4]
      
۳۔ اہل بہشت اور منافق جہنمیوں کے درمیان دیوار: جس دن منافق مرد اور عورت مومنین سے کہیں گے: ایک نظر ہماری طرف بھی تاکہ آپکے نور سے ایک ضوء ہمیں بھی مل سکے، تو انسے کہا جائے گا: اپنے ماضی کے جھروکوں میں جاؤ اور وہاں سے نور لے کر آؤ، اس وقت انکے درمیان ایک دیوار حائل ہو جائے گی جسمیں ایک دروازہ ہے جسکا اندونی حصہ رحمت اور بیرونی عذاب ہے۔انہیں پکاریں گے: کیا ہم تمہارے ساتھ نہیں تھے؟ وہ کہیں گے کیوں نہیں، لیکن تم نے خود سے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالا ہے۔[۵] مذکورہ آیت سے یہ نتیجہ نکتا ہے کہ اہل بہشت اور جہنمی منافقین کے درمیان فاصلہ ایک دیوار ہے، اور اس دیوار میں ایک دروازہ ہے، جس کے اندر جنت کے رخ  پر رحمت ہے، اور باہری جہنم کا پہلو عذاب کا پہلو ہے ۔تیسرا نکتہ یہ ہے کہ اس دیوار کے باوجود وہ ایک دوسرے کی آوازیں سنتے ہیں، اس طرح یہ واضح طور پر اشارہ کرتے ہیں کہ جنت اور جہنم ایک دوسرے کے قریب ہیں، دو الگ الگ سیاروں اور مقامات پر نہیں۔

مزید مطالعہ کے لئے مندرجہ ذیل منابع کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے:

۱. تفسیر نمونه، آیت‌الله مکارم شیرازی، ج ۲۵، ص ۲۵۲ـ۲۵۴.

۲. معاد از نظر روح و جسم، محمدتقی فلسفی، ص ۲۹۵ـ۳۶۴.

۳. زندگی جاوید یا حیات آخرت، شهید مرتضی مطهری، تمام کتاب۔

حوالے :

[۱] . اعراف/ ۴۴.

[۲] . مدثر/ ۴۰ ـ ۴۵.

[۳] . مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونه، انتشارات صدرا، ج ۲۵، ص ۲۵۳.

[۴] . فیض کاشانی، محسن، تفسیر الصافی، بیروت، مؤسسة الاعلمی للمطبوعات، چاپ سوّم، ۱۴۰۲، ج ۵، ص ۲۵۱.

تبصرہ ارسال

You are replying to: .