حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،میرٹھ/''خطبے کا موضوع تو نئی صدی میں اردو غزل تھا لیکن ہر عہد کا کوئی نہ کوئی نام ہونا چاہئے۔ چونکہ جب ترقی پسندیت کا احتجاج سرد پڑنے لگا تو ناصر کاظمی نے اپنے احباب و حلقۂ ارباب ذوق کی بنیاد رکھی۔ آج ناصر شناسی کا نیا ادبی ڈسکورس شروع ہورہا ہے۔ تابش فرید ڈاکٹر تابش فرید ہورہے ہیں تو یہاں کے جدید ترقی پسند ادب اور نئی ترقی پسند غزل کا سلسلہ شروع ہونا چاہئے۔ آج کے مسائل ترقی پسندوں سے زیادہ مشکل ہیں۔ جدیدیت اور ما بعد جدیدیت کی اصطلاحیں اب روا یتی ہوگئی ہیں۔ آج امن کے نام پر ظلم ہورہا ہے، عورت کی عظمت کے نام پر عورت کا استحصال ہورہا ہے۔آج اقلیتی مسائل شدید سے شدید تر ہوتے جارہے ہیں اور آج کے مسائل کی تحقیق و تنقید اور تخلیق کے لیے آج کے نئے دماغ کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ یہ الفاظ تھے لکھنو ٔ سے تشریف لائے پروفیسر عباس رضا نیر کے جو شعبۂ اردو، چودھری چرن سنگھ یو نیورسٹی، میرٹھ اور اسماعیل نیشنل مہیلا پی جی کالج، میرٹھ کے مشترکہ اہتمام میں منعقدبعنوان'' نئی صدی میں اردو غزل''پر خصوصی مقرر کی حیثیت ادا کررہے تھے۔
پروفیسر عباس رضا نیر نے ہندوستان اور پاکستان کے ساتھ اردو کی تمام نئی بستیوں کے اکیسویں صدی کے شعراء کے یہاں جدید ترقی پسند عناصر پر مشتمل اشعار پیش کیے اور اس طرح پیش کیے کہ ان کے معنی و مفاہیم خود بخود واضح ہوتے جارہے تھے۔
انہوں نے پروفیسر اسلم جمشید پوری کی ادبی سر گرمیوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے دو برسوں میں ایک درجن کتابیں شائع کیں اور جس طرح فکشن کی تخلیق و تنقید سے وابستہ ہو کر شاعری پر تحقیقی کام کرا رہے ہیں یہ صرف انہیں کا حصہ ہے۔
اس سے قبل پرو گرام کا آغازمولانا جبرئیل نے تلاوت کلام پاک سے کیا۔ہدیۂ نعت علما ملک نے پیش کیا۔ صدارت کے فرائض معروف ادیب و ناقد اور صدر شعبۂ اردو پروفیسر اسلم جمشید پوری نے انجام دیے۔ استقبالیہ کلمات ڈاکٹر شاداب علیم، نظامت ڈاکٹر آصف علی اور شکریہ کی رسم ڈا کٹر ارشاد سیانوی اور ڈاکٹر عفت ذکیہ نے ادا کی۔
پرو گرام دو حصوں پر مشتمل رہا۔ پہلے حصے میں پی ایچ ۔ڈی کے طالب علم تابش فرید فرید کا وئیوا عمل میں آیا۔ جن کا مو ضوع تھا'' ناصر کاظمی کی رومانوی شاعر'' اور پروگرام کے دوسرے حصے میں'' نئی صدی میں اردوغزل'' موضوع پر لکھنؤ سے تشریف لائے پروفیسر عباس رضا نیر نے خصوصی لیکچر پیش کیا۔
اپنے صدارتی خطبے میں پروفیسر اسلم جمشید پوری نے کہا کہ آج کا خطبہ غزل میں جدید ترقی پسندی کے عناصر کی نشاندہی پر مبنی تھا۔ پروفیسر عباس رضا نیر نے بڑی خوبصورتی سے موضوع کا احاطہ کیا ہے جو نئی صدی میں اردو غزل کے مختلف مو ضوع و پہلو ہو سکتے ہیں انہوں نے نہایت تفصیل سے بیان کیا ہے۔
اس صدی میں جو غزل اور افسا نے تخلیق ہو رہے ہیں ان کو کیا نام دیا جائے۔مابعد جدیدیت کا تو خاتمہ ہو چکا ہے اب وہ وقت آ چکا ہے کہ اس کے خاتمے کا اعلان کر دینا چاہئے۔ آج ادیب بالکل آزاد ہیں، آج بہت سے شعراء و ادبیوں میں اقلیتی اور دلت ڈسکورس نظر آ رہا ہے جو اس صدی سے قبل نظر نہیں آتا تھا۔ اس عہد کو جدید ترقی پسندی کا نام دیا جاسکتا ہے۔
اس مو قع پر ڈاکٹر الکا وششٹھ،ڈاکٹر شبستاں آس محمد، فرح ناز، گلناز، نوید خان ،مدیحہ اسلم، فیضان ظفر، محمد شمشاد، عمائدین شہراور کثیر تعداد میں طلبہ و طالبات موجود رہے۔