۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
نیر

حوزہ/اردو غزل میں نئے رجحانات پر تبادلہ خیال کے مقصد سے میرٹھ یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں خصوصی اسماعیل میرٹھی یادگاری لیکچر پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق میرٹھ ۔ کم لفظوں میں مکمل بات، جذبات اور حالات کی عکّاسی اردو غزل کی خوبصورتی ہے۔ امیر خسرو سے لیکر جدید دور میں وقت کے ساتھ غزل بھی بدلی لیکن تفکّر اور تاثر برقرار رہا۔ اردو غزل میں ایسے ہی نئے رجحانات پر تبادلہ خیال کے مقصد سے میرٹھ یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں خصوصی اسماعیل میرٹھی یادگاری لیکچر پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔

اردو ادب میں غزل انسانی جذبات اور احساسات کی عکاسی کا ذریعہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو ادب کے دیگر اصناف ادب اور فنون میں سب سے زیادہ غزل کو پسند کیا جاتا ہے۔ جدید تحقیق میں اُردو غزل کا پہلا نمونہ امیر خسرؔو کے یہاں ریختہ کی صورت میں ملتا ہے۔ ابتدائی دور میں غزل عشق و محبت کے جذبات کی عکّاسی کے سوا کچھ نہ تھی لیکن بدلتے دور کے ساتھ غزل میں ہر مضمون کی گنجائش پیدا ہوئی۔ اردو غزل کے نئے رجحانات کے موضوع پر مقالہ پیش کرتے ہوئے معروف شاعر اور ادیب عبّاس رضا نیّر نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

مشاعروں میں غزل گوئی کے تعلق سے عبّاس رضا نیّر کا ماننا ہے کہ مشاعروں میں پڑھی جانے والی غزلیں بڑی شاعری نہ سہی لیکن اردو غزلوں کی مقبولیت کا ذریعہ ضرور ہیں جو آج کل کی شعری نشستوں کا تقاضا بھی ہے لیکن نئی دور کی پائیدار شاعری کے لئے سامعین میں غزل سنانے کے ساتھ پڑھنے اور بولنے کا رجحان پیدا کرنا بھی ضروری ہے۔

عبّاس رضا نیّر کے مطابق جدید دور میں غزل محض عشق و محبت کی شاعری ہی نہیں بلکہ حالات کی عکّاسی کا ذریعہ ہے اور اصلی مسائل بھی غزل کا حصّہ بن رہے ہیں۔ عربی لفظ غزل کے معنی عورتوں سے حسن و عشق کی باتیں کرنا ہے لیکن اردو غزل کے نئے رجحانات میں انسانی جذبات اور احساسات کا دائرہ کافی وسیع نظر آتا ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .