حوزہ نیوز ایجنسی | علامہ سید سبط الحسن رضوی ہنسوی سنہ 1908 عیسوی میں سرزمین بنارس پر پیدا ہوئے۔ آپ کے والد سید فیض الحسن رضوی ایک نہایت متدین شخص تھے، جو بنارس میں انکم ٹیکس ڈپارٹمینٹ میں ملازم تھے ، اسی لۓ مولانا کی پرورش بنارس میں ہوئی۔
علامہ ابتدائی سے فاضل تک مدرسہ ایمانیہ بنارس میں جوادالعلما مولانا سید علی جواد اور مولانا سید محمد سجاد کی سرپرستی میں تعلیم حاصل کرنے اور بنارس کے گھاٹ پر پرورش پانے کی وجہ سے بچپن ہی سے گنگا جمنی تہذیب کے حامل تھے۔ آپ کو اسلامی علوم کے ساتھ ہندو فلسفہ پر بھی عبور حاصل تھا۔ قرآن اور گیتا دونوں پر مسلط تھے نیز " نہج البلاغہ" آپ کی پسندیدہ کتاب تھی۔
علامہ نے اپنے دنیوی تدریسی سفرکا آغاز" ایونگ کرسچن کالج الہ آباد" سے کیا اور وہیں سے شاگردوں کی تربیت کا آغاز کیا ۔
1933 عیسوی میں ان کی تحریر کردہ کتاب شائع ہوئی جو" ایونگ کرسچن کالج الہ آباد" کے نصاب کے لئے تجویز کی گئی ۔ مختلف مصنفین کے اقتباسات کا اردو میں ترجمہ کیا جو 1937 ء میں کالج کے طلباء کے لیے شائع کیا گیا تھا۔
علامہ آہستہ آہستہ الٰہ آباد میں جاری آزادی کی جدوجہد میں شامل ہو ئے اور ایک نوجوان محب وطن کی حیثیت سے بائیکاٹ کی تحریک کا حصہ بن گئے۔ وہ ہندوستان کی آزادی کے لئے مہاتما گاندھی اور پنڈت جواہر لال نہرو کے پیروکار تھے۔
تحریک آزادی میں شمولیت کے سبب ¬علامہ کو ملازمت سے نکال دیا گیا اور سنہ 1933 عیسوی میں کچھ عرصے کے لیے زندان کی اذیتیں بھی برداشت کیں۔ علامہ کھادی کے علاوہ کسی دوسری قسم کے کپڑے نہیں پہنتے تھے، اس عادت کو موصوف نے آزادی کے بعد بھی جاری رکھا۔
فاضل ہنسوی سنہ 1930عیسوی کی دہائی کے آخر میں لکھنؤ میں آباد ہوئےاور سعیدا لملت کے ساتھ زیارت عتبات عالیات کی غرض سے نجف، کربلا اور مشہد کا سفر کیا۔ حوزۂ علمیہ نجف میں آیت اللہ بروجردی سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے علامہ کی لیاقت علمی کو دیکھ کر اجازہ سے نوازا ، ان کےعلاوہ دیگر مراجع کرام نے بھی اجازات مرحمت فرمائے، آپ کے حاصل شدہ اجازات کی تعداد 18 بتائی جاتی ہے۔
علامہ کی ڈائری کے مطابق ماہ اگست سنہ 1947ء میں ہندوستان کو آزادی ملی تواس وقت وہ عراق کے شہر (کربلا )میں تھے، جب انہوں نے آزادی اور تقسیم کی خبر سنی تو پریشان ہوۓ کہ کہاں جائیں؟ ایک طرف مادری وطن جہاں قتل عام ہو رہا تھا تو دوسری طرف پاکستان جس کی انہوں نے مخالفت کی تھی؟ اسی وقت تنزانیہ کے ایک بااثر اور خوش حال شخص نے انہیں دارالسلام میں سکونت اختیار کرنے اور پیش نماز بننے کی پیشکش کی تو علامہ نےکوئی جواب نہیں دیااور پوری رات امام حسین کی قبر پر دعا کرتے ہوئے گزاری اور رو رو کر امام سے التجا کرتے رہے کہ میں مذہب کو پیشہ نہیں بنانا چاہتا۔ اے میرے مولاحسین مجھے راستہ دکھا ئیے !
صبح کی نماز کے بعد جب وہ اپنی رہائش گاہ پر پہنچے تو دیکھا کہ ایک آدمی ان کا انتظار کر رہا ہے۔ اس شخص نے پوچھا: کیا آپ سید سبط الحسن ہیں؟ جب اسے ہاں میں جواب ملا تو اس نے نہروجی کا ایک خط علامہ کو دیا جس میں نہرو جی نے ان سے ہندوستان واپس آنے کی درخواست کی تھی،اس طرح وہ عراق سے لکھنؤواپس پلٹ آۓ ۔
1953 عیسوی میں علامہ سبط الحسن ہنسوی کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ذاکر حسین کی طرف سے یونیورسٹی کی لائبریری میں خالی جگہ کے بارے میں ایک خط موصول ہوا تو موصوف نے سنہ 1954ءمیں اسسٹنٹ لائبریرین کے طور پر شمولیت اختیار کی اور جلد ہی ایک سیکشن کے انچارج کے عہدے پر مقرر ہو گئے ۔ انہوں نے عملی طور پر مولانا آزاد لائبریری کا مخطوطہ سیکشن بنایا اور بڑی تعداد میں مخطوطات اور متعلقہ نوادرات کے حصول، شناخت اور محفوظ کرنے میں مدد کی۔ مخطوطات کے وضاحتی بیان کی ایک بڑی تعداد اب بھی ان کی تحریر میں موجود ہے۔
علامہ سنہ 1971 عیسوی میں علیگڑھ یونیورسٹی سے ریٹائر ہو گئے، جس یونیورسٹی میں انہوں نے بے تحاشہ خدمات انجام دیں اسی نے ان کوپنشن دینے سےمنع کر دیا !
موصوف بڑے فاضل ، محقق ، کتب شناس اور ماہر علم رجال و تاریخ تھے ۔ تحقیق ان کا مشغلہ تھا ۔حج و زیارات کے سفر اور تبلیغی دوروں میں بھی ان کا محبوب مشغلہ کتب خانوں کی چھان بین تھا۔ انہوں نے بہت سے اہم اور نادر موضوعات پر کام کیا ۔ ان کی ان علمی خدمات کے اعتراف کے طور پر منتدی النشر نجف ، انجمن تبلیغات اسلامی تہران ، اسلامک ریسرچ ایسوسی ایشن ممبئی اور دوسرے علمی اداروں نے آپ کو ممبر بنا لیا تھا ۔ مرحوم خود بھی علمی اور تحقیقی کام کرتے تھے اور اس راہ پر چلنے والے جوانوں کی پوری ہمت افزائی کرتے تھے ۔ اسی وجہ سے ایران کی بزرگ شخصیات بھی ان کا احترام کرتی تھیں ان کے مجموعے میں وہ خطوط ملتے ہیں جو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے انہیں لکھے تھے۔
علامہ نے علی گڑھ سیول لائن میں عزاداری کو دوبارہ شروع کیا جو ابھی تک جاری و ساری ہے
علامہ سبط الحسن ہنسوی کے اہم ترین آثار میں سے منہاج نہج البلاغہ، الکتب والمکتبات، تاریخ عزاداری، تذکرہ مجید، عربی مرثیہ کی تاریخ اور اظہار حقیت شامل ہیں۔ مختلف اردو جرائد میں شائع ہونے والے مضامین کی ایک بڑی تعداد بھی موجود ہے ۔
اللہ نے آپ کو تین دختر اور دو پسر سے نوازا جنکو نجم الحسن اور علی ندیم رضوی کے نام سے پہچانا جاتا ہے
شہید ثالث کے مزار کی عمارت موصوف کی ہدایات کے تحت تعمیر ہوئی تھی اور کئی دہائیوں تک وہی اسکے متولی اور اعزازی سکریٹری رہے تھے ، آخر وہ وقت بھی آیا کہ حرکت قلب بند ہو جانے کے سببب 7 اپریل 1978ء میں سرزمین علیگڑھ پر وفات پائی ، جنازہ شہید ثالث کے مزار پر لے جایا گیا اور ناصر الملت کی قبر والے حجرہ میں سپرد خاک کر دیا گیا ۔
ان کے بیٹے فرماتے ہیں کہ 19 سال بعد یکم جولائی 1997ءکو مجھے اطلاع ملی کہ ان کی قبر میں گڈھا ہو گیا ہے ۔ میں وہاں پہنچا اور اطمینان قلب کی خاطر قبر میں داخل ہوا کفن اٹھایا تو معلوم ہوا کہ میرے والد ایسے لیٹے ہیں ، جیسے سو رہے ہوں کوئی اضافی شکن نہیں، تاریخ اور آثار قدیمہ کے میدان میں رہتے ہوۓ ایسے نمونے پہلے بھی دیکھے ہیں جب میں نے اپنے والد کے کردار کے پیش نظر ان کے جسم کو محفوظ پایا تو سمجھ میں آیا کہ یہ چیز کرامت کے سوا اور کچھ نہیں ۔
ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج9، ص 147دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی 2023
ویڈیو دیکھیں: