۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
ڈاکٹر سید حیدر حسینی

حوزہ/گزشتہ روز ایک مجلسِ عزاء بمناسبت بیسواں برائے شہدائے کربلا، بمقام بیت الصلوات، اے ایم یو، علی گڑھ ہندوستان میں منعقد ہوئی، مجلس سے خطاب عالی جناب ڈاکٹر سید حیدر حسینی صاحب، شعبۂ میڈیسن جے این میڈیکل ہاسپٹل مسلم یونیورسٹی علی گڑھ نے کیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مجلس کا آغاز حاجی غلام رضا کے تلاوت قرآن ربانی سے ہوا۔ معروف سوز خوان انجینئر سید عظیم شمس آبادی نے سوز خوانی کے فرائض انجام اپنے مخصوص انداز اور پُردرد آواز میں دیئے اور اپنے کلام پر داد، تحسین و آفرین حاصل کیں۔

عالی جناب ڈاکٹر سید حیدر حسینی نے مجلس کو خطاب کرتے ہوئے حضرت امام علیؑ بن الحسینؑ کے رسالتہ الحقوق میں سے پہلے حقوق اللہ کو سرنامہ سخن قرار دیا کہ "فَامَّا حَقُّ اللہٍ الاکبر۔۔۔۔۔تُحٍبُّ مٍنھَما جس کا ترجمہ بیان فرمایا کہ خدا کا حقوق تمام حقوق سے افضل و برتر ہے وہ یہ ہے کہ تم اسی کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک قرار نہ دو۔ جب تم خلوص کے ساتھ اس کی عبادت کرو گے تو خدا نے بھی اپنے اوپر یہ لازم کر لیا ہے کہ وہ دنیوی اور اخروی چیزوں میں تمھاری کفایت کرے اور تمھارے لئے تمھاری محبوب و پسندیدہ چیزوں کو محفوظ رکھے۔" یہ رسالتہ الحقوق امام زین العابدین علیہ السلام نے 1350 سال قبل زمانے کے حوالے کیا۔ اس میں 51 حقوق کو بیان فرمایا ہے اوّل مقام پر حقوق اللہ ہے اور 51 ویں نمبر پر اہل کتاب کا حق ہے۔ یہ مختصر گرانقدر آپؑ کی شخصیت سے متعلق جملہ فضائل و کمالات کا عکاس ہے۔ نماز پڑھنے کے لئے معبود کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں جو سب کچھ عطاء کرنے والا مگر نماز کے دوران خیال کہیں اور ہی ہوتا ہے۔

ڈاکٹر حسینی نے تحقیقی حقائق پیش کرتے ہوئے بیان فرمایا کہ مختلف ادوار میں مختلف مذاہب کے لوگوں نے حقوق کے نام پر لوگوں کا استحصال کیا اور حقوق انسانی کے پرچم کے علمبردار بننے کی کوشش کی۔ آج یورپ اور امریکہ انسانی حقوق کے تحفظ کے نام پر کئی ادارے قائم کئے ہوئے ہیں، لیکن اس کے پس پردہ دھوکہ ہے جیسا کہ عالمی طور پر فلسطین میں انسانی حقوق کی پامالی و خلاف ورزی کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔

دوسری جانب نظام بشریت کو پیکر انسانیت کے ذریعے چلانے کے لئے خالق کائنات کا قرآن کریم کے سورہ البقرہ کی آیت مبارکہ نمبر 30 میں ارشاد باری تعالٰی ہو رہا ہے "اے رسول! اس وقت کو یاد کرو جب تمھارے پروردگار نے ملائکہ سے کہا میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں اور انہوں( ملائکہ) نے کہا کہ کیا اسے بنائے گا جو زمین میں فساد برپا کرے اور خونریزی کرے جب کہ ہم تیری تسبیح اور تقدیس کرتے ہیں تو ارشاد ہوا کہ میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔" ملائکہ کے شک و شبہ کو ختم کرنے کے لئے یہ وضاحت ضروری ہے کہ آدمؑ کو زمین میں خلیفہ بنانے کے پہلے کی مخلوقات نے فساد کیا تھا تو وہ خلیفتہ اللہ نہیں تھے، آدم کو خلیفہ بنا رہا ہوں تو خلیفہ مفسد نہیں ہوتا بلکہ صاحب کردار اور اعلمٍ کائنات ہوتا ہے۔

ڈاکٹر حیدر حسینی صراحت سے وضاحت کی کہ حسینیت کیا ہے اور حسینی کے فرائض کیا ہیں؟ جب سے محرم الحرام کا چاند افق پر نمودار ہوا تب سے حسینی اپنا وقت، قوت، پیسہ، رتبہ، توانائی گویا جو کچھ دستیاب تھا سب کچھ شہدائے کربلا پر صرف کیا۔ یہ سب حسینیت کو زندہ رکھنے کے لئے کیا اور آپؑ کے پیغامٍ کربلا کو عام کرنے کے لئے کیا۔ حسینی کا فرض بنتا ہے کہ سیاہ لباس زیب تن کریں، مجلس برپا کریں، چہرے ہر اداسی ہو، سڑکوں پر جلوس برآمد کیا جائے، ڈاکٹروں، پروفیسروں اور اعلٰی عہدیداران کے ہاتھوں میں عَلم ہو اور کاندھوں پر سید الشہداءؑ کی شبیہ تابوت ہو، ظلم کے خلاف آواز بلند ہو، اور کردار و عمل صبر، شکر، حق و انصاف کا اظہر و مظہر ہو۔ قابل اتباع آفاقی پیغام و تعلیمات ہیں کہ امام حسین علیہ السلام آگاہ تھے کہ بھوکا اور پیاسا تپتی زمین پر شہید کر دیا جاؤں گا، سر تن سے جدا کیا جائے گا، لاشیں پامال ہوں گی اور لاشیں بے کفن پڑی رہیں گی پھر بھی دین کی حفاظت اور انسانیت کی بقا کے لئے واجب امور امر با لمعروف و نہی عن المنکر کے لئے نانا اور ماں کی قبر کو الوداع کہا۔

ڈاکٹر حیدر حسینی صاحب سیدانیوں کے بے مقنہ و ردا بازار شام اور نیزوں پر شہدائے کربلا کے سروں کو بلند کیا ہو مصائب بیان کیا تو عزاداران سید الشہداء زار و قطار آنسو بہائے اور ماتم و گریہ کیا۔ کثیر تعداد میں سوگواران کربلا نے مجلس میں شرکت کی۔ مجلس کے انتطام، اہتمام، انعقاد اور کامیاب بنانے میں انجمن تنظیم العزا، اے ایم یو، علی گڑھ کے جنرل سیکریٹری، جناب سید نادر عباس نقوی نے اہم کردار ادا کیا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .