حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،سالہا قبل فخرالعلماٗ حجۃ الاسلام مولانا مرزا محمد عالم صاحب طاب ثراہ نے ایک دینی درسگاہ کی بنیاد رکھی اور آپ نے شب و روز عرق ریزی کرکے اس درسگاہ کو ترقی کے مراحل طے کرائے ابھی درسگاہ ترقی کی طرف قدم ہی بڑھا ہی رہی تھی کہ مولانا کی زندگی نے وفا نہ کی اور آپ کا جسد خاکی اسی درسگاہ میں سپرد لحد کردیا گیا ۔ زمانہ نے اس درسگاہ کو "مدرسہ جامعۃالتبلیغ یا عالم صاحب کا مدرسہ" کے نام سے جانا اور پہچانا ۔
فخرالعلماٗ حجۃ الاسلام مولانا مرزا محمد عالم صاحب طاب ثراہ کی رحلت کے بعد یہ حوزہ علمیہ مختلف نشیب و فراز سے مختلف علما و فضلا کی مدیریت میں گزتا رہا اور گزر رہا ہے۔ آپ کے بعد جب تک خطیب اکبر مولانا مرزا محمد اطہر صاحب طاب ثراہ با حیات رہے مدرسہ کی سرپرستی بہت اچھے اسلوب سے نبھاتے رہے اور جب کبھی بھی طلاب اور اساتذہ کو کسی پریشانی کا سامنا ہوتا تو آپ بہت اچھے طریقہ سے حل فرماتے رہے۔
جب سے فخرالعلماٗ مولانا مرزا محمد عالم صاحب طاب ثراہ کے فرزندان خصوصا حجۃ الاسلام مولانا مرزا محمد جعفر عباس صاحب نے ہوش سنبھالا تو موصوف مدرسہ کی ترقی میں اپنے والد محترم کی طرح شب و روز سعی و تلاش کرتے رہے اور ہر روز تعلیمی نظام کے علاوہ دیگر امور میں بھی بہتری لاتے رہے۔
ایک دور تھا مدرسہ طلاب سے چھلک رہا تھا اور اساتذہ بھی محنت سے اپنے شاگردوں کی تربیت میں مصروف تھے۔ ہندوستان کی سرزمین اپنی علمی لحاظ سے بھرپور بدل چکی تھی نظام تعلیم بھی تبدیل ہو چکا تھا۔ قدیم زمانہ میں اردو اور فارسی کی تعلیم اس دور کا معیار شرافت سمجھی جاتی تھی مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے ہی اکثر حکیم اور ڈاکٹر ہوتے تھے کیونکہ مدارس کے نصاب میں ایک درس علم طب کا بھی ہوتا تھا جس کو مدارس کے تعلیم یافتہ اپنا ذریعہ معاش قرار دیتے تھے۔حکومتی اور دیگر ادارات کی زبان بھی فارسی اور عربی تھی جیسا کہ قدیمی کاغذات اس بات کی تائید کرتے ہیں ۔ مدارس اپنی عظیم الشان عمارت کے باوجود تنگ دامنی کی شکایت کرتے نظر آتے تھے مگر دھیرے دھیرے وقت بدلتا رہا دفاتر کی زبان انگریزی ہوگئی عربی اور فارسی زبان ختم ہونے لگی اور طبیہ کالج میں بھی انگریزی نفوظ کر چکی تھی عربی فارسی جانے والے بے روزگار ہوگئے مگر افسوس مدارس کے انتظامیہ اور پرنسپل سوتے رہے ان کو خبر تک نہ ہوئی کہ ان کی غفلت یا بے شعوری نے قوم اور علما کا کتنا بڑا نقصان کیا ۔ مدارس کے تعلیم یافتہ افراد نے تبلیغ کو ذریعہ معاش قرار دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قوم کے ساتھ ساتھ دین و دینداری بھی تنزلی کی طرف بڑھتی رہی اور علمائے کرام نے اپنی بصیرت سے کام نہیں لیا۔
اب زندگی کے اقدار بدل چکے ہیں صرف دین ہی سے عدم دلچسپی نہیں بلکہ اردو، فارسی اور عربی ایک غیر معقول زبان کی تعریف میں آنے لگیں ہیں۔ تقریبا ہر ذہن کو دینی تعلیم فقر کا سبب لگنے لگی ہے اس لیے عربی مدارس کے نصاب میں ویرانی ہی ویرانی ہے اور جو کچھ بہار بچی بھی تھی وہ زمانہ کی سازشوں کی نظر ہوگئی اب طلاب ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے۔ آخر کیوں؟ مدارس کے طلاب خود ہی اس مشکل کی طرف متوجہ ہوئے اور انہوں نے عصری تعلیم کو یونیورسٹی اور کالج میں شروع کیا مگر وہ لفظوں میں بیان نہ کر سکے یا مدارس کے ذمہ حضرات سمجھ نہ سکے۔ مدیران نے مشکل کو سمجھنے کے بجائے اور سختی سے کام لیا اگر کسی طالب علم نے یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا اور مدیر کو اس کی اطلاع ہوئی تو اس طالب علم کو سزا کے طور پر مدرسہ سے خارج کردیا جاتاتھا یا پھر کوئی اور سزا د معین کی جاتی تھی تاکہ دوسرے طلاب عصری تعلیم کے بارے میں سوچ بھی نہ سکیں۔
الحمدللہ جب سے مرزا جعفر عباس صاحب نے مدرسہ کو سنبھالا تو اس بات پر غور کیا اور انگریزی زبان کا استاد مدرسہ میںہمیشہ رکھا تاکہ عربی فارسی کے طلاب اس زبان سے آشنا ہوںسکیں۔ دھیرے دھیرے ان کی فکر اس طرف بڑھتی رہی او ر وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ مدرسہ میں "انگریزی میڈیم اسکول" کھولاجائے جس سے طلاب اور شہر کے بچے اپنی علمی تشنگی بجھا سکیں الحمدللہ جانیشین فخرالعلما ء نے عملی جامہ پہنا دیاآج وہ اسکول کی عمارت تیار کرکے کلاسوں کی منزل تک لے آئے ہیں۔ یہ اسکول آئی۔ ایم ۔ ایس (A.I.M.S.) انگریزی میڈیم اسکول کے نام سے جانا اور پہچانا جائے گا۔ایک دن میرا لکھنو جانا ہوا تو میرا دل پاہا کہ اپنی مادر علمی حوزہ علمیہ جامعۃ التبلیغ بھی جانا چاہئے میں وہاں پہنچا اساتذہ کرام اور طلاب ذی الاحترام سے ملاقات ہوئی برادر عزیز مولانا محمد حسن جلالپوری صاحب نے مجھے ساتھ لے جا کر اسکول کی عمارت کو دیکھایا تو مجھے حد درجہ خوشی ہوئی جس کو میں لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا کیونکہ میں کچھ مدارس کے مدیران سے اس ضرورت کو بیان کرچکا تھا کہ مدارس کو دینی تعلیم کے ساتھ طبیہ کالج یا میڈیکل کالج یا اس کی تیاری کرائی جائے مگر ان لوگوں نے سنی ان سنی کی کیونکہ ان کے اقتصادی مسائل حل ہیں ۔ بس اللہ سے یہ ہی دعا ہے کہ پالنے والے جانشین فخرالعلماٗ کو صحت و سلامتی عطافرماء ان کی توفیقات میں مزید اضافہ فرماء، اسکول کو شب و روز ترقی عطافرماء اور قوم و ملت کو اس اسکول سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنے کی توفیق عطافرماء آمین والحمدللہ رب العالمین۔
والسلام سید رضی زیدی پھندیڑوی مقیم دہلی
سابق طالب علم حوزہ علمیہ جامعۃ التبلیغ مصاحب گنج لکھنو ۔