۷ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 26, 2024
لکھنؤ کا روضہ کاظمین

حوزہ/ لکھنؤ کے محلہ منصور نگر میں واقع روضہ کاظمین 1847 سے 1853 کے درمیان تعمیر کیا گیا۔ یہ وہ یادگار عمارت ہے جو اج بھی گنگا جمنی تہذیب کے طور پر جانی جاتی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،لکھنؤ/ شہر لکھنؤ نہ صرف تہذیب و ثقافت، زبان و ادب اور تاریخی عمارتوں کے حوالے سے پوری دنیا میں مشہور ہے بلکہ یہاں گنگا جمنی تہذیب و باہمی رواداری کی وہ انوکھی مثالیں موجود ہیں جو اسے دیگر شہروں سے ممتاز بناتی ہیں۔

اس شہر کے کچھ مندر ایسے ہیں جنہیں شاہان اودھ نے تعمیرا کرایا تو کچھ امام بارگاہوں کو ہندو رعایا نے بھی تعمیرا کرایا جو آج بھی مشترکہ تہذیب کے علامت سمجھی جاتی ہیں۔ انہیں میں سے فن تعمیرا کا شاہکار شبیہ روضہ کاظمین ہے۔

لکھنؤ کا روضہ کاظمین گنگا جمنی تہذیب کی شاندار مثال

پرانے لکھنؤ کے محلہ منصور نگر میں واقع روضہ کاظمین 1847 سے 1853 کے مابین تعمیر کی گئی وہ یادگار عمارت ہے جو اج بھی گنگا جمنی تہذیب کے طور پر یاد کی جاتی ہے۔

دراصل اس عمارت کو امجد علی شاہ کے وزیر رہے جگناتھ اگروال نے تعمیر کرایا تھا جو بعد میں شرف الدولہ غلام رضا کے نام سے بھی مشہور ہوئے۔ بادشاہ امجد علی شاہ کے غلام رضا عرف جگناتھ اگروال کے بے حد قریبی مانے جاتے تھے۔ ان کو امامیہ فرقے میں بھی دلچسپی تھی۔

کہا جاتا ہے کہ انہوں نے سوچا کہ لکھنؤ میں بیشتر اماموں کے شبیہ روضے موجود ہیں لیکن عراق میں واقع کاظمین کا شبیہ روضہ موجود نہیں ہے۔ اس کے بعد انہوں نے منصور نگر میں زمین کا ایک طویل عریض ٹکڑا خریدا اور شبیہ روضہ کاظمین تعمیر کرایا۔

لکھنؤ کا روضہ کاظمین گنگا جمنی تہذیب کی شاندار مثال

یہ عمارت ایک طرف جہاں مذہبی ہم آہنگی کی شاندار مثال ہے تو وہیں فن تعمیر کا بھی بہترین نمونہ ہے۔ مرکزی دروازہ کے بعد ایک شاندار گیٹ تعمیر ہے۔

اندر رونی عمارت پر بلند چار مینار ہیں۔ جبکہ عمارت کے وسط میں سنہرے رنگ میں دو گنبد موجود ہیں جو عمارت کی خوبصورتی میں چار چاند لگاتے ہیں۔

لکھنؤ کا روضہ کاظمین گنگا جمنی تہذیب کی شاندار مثال

آج بھی کثیر تعداد میں بلا تفریق ملت و مذہب افراد روضہ کی زیارت کے لیے آتے ہیں جبکہ عام دنوں میں سیاحوں کی بھی بڑی تعداد آتی ہے۔ کئی برس سے یہ عمارت حکومت ہند کے محکمہ آثار قدیمہ کے ماتحت ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .