۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
مولانا سید حیدر عباس رضوی

حوزہ/ حالیہ دنوں میں لکھنو کے ڈی ایم کے بیان نے شہر کی عوام کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ جسکے تعلق لکھنؤ کے برجستہ عالم دین مولانا حیدر عباس رضوی نے آصفی امام باڑے کے عظیم تاریخی مذہبی عمارت کا مختصر تعارف پیش کیا گیا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،حالیہ دنوں میں لکھنو کے ڈی ایم کے بیان نے شہر کی عوام کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ جسکے تعلق لکھنؤ کے برجستہ عالم دین مولانا حیدر عباس رضوی نے آصفی امام باڑے کے عظیم تاریخی مذہبی عمارت کا مختصر تعارف پیش کیا گیا ہے۔

ہر دل ہے عندلیبِ گلستانِ لکھنؤ رضواں بھی ہے ارم میں ثنا خوانِ لکھنؤ

گلزارِ مومنیں ہے زہے شانِ لکھنؤ نعرے علی علی کے ہیں قربانِ لکھنؤ

کیوں سرخرو نہ ہو یہ چمن سبزہ وار ہے

دیکھو کہ اِس خزاں پہ کیسی بہار ہے

مجلس کا انتظام اِسی شہر پر ہے ختم رونے کا اہتمام اِسی شہر پر ہے ختم

یہ آبرو یہ نام ا،سی شہر پر ہے ختم بس ماتم امام اِسی شہر پر ہے ختم

پوچھو جو پھر کے آئے ہیں یاں ہر دیار میں

دیکھا نہ ہوگا ایک گل ایسا ہزار میں

(میر انیس لکھنوی)

یوں تو دنیا میں ملکوں ملکوںبچھنے والے فرش عزا کو ارض خدا کا حسن کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا لیکن سرزمین ہندوستان میں مختلف ادیان ومکاتب فکر سے تعلق رکھنے والوں کے درمیان عزائے سید الشہداء علیہ السلام کا اہتمام اپنے آپ میں ایک مثال ہے۔ہندوستان جیسے ملک میں روز عاشورا سرکاری چھٹی ہونا خود اس بات کی دلیل ہے کہ ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام کی قربانی، کاروان بشریت اور سلسلہ ٔانسانیت سے تعلق رکھنے والے تمام افراد کی بقا و تحفظ کا سامان فراہم کر گئی۔ہندوستان میں جب کبھی عزا وعزاداری کے موضوع پر قلم اٹھایا جائے گا ،اودھ کا اس میں ضرور تذکرہ ملے گا ۔اودھ بالخصوص شہر عزالکھنؤ کی تہذیب زبانزد خاص وعام ہے۔ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب دنیا کے کسی گوشہ میں دیکھنے کو نہیں ملتی ۔

ڈاکٹر نسیم اقتدار علی کے بقول :''لکھنؤ کی روایتی تہذیب جس کی ستائش میں لکھنے والوں کے قلم آج بھی تر وتازہ اور بیان کرنے والوں کے دہن شگفتہ ہیں ان کی داغ بیل اٹھارویں صدی کے ربع اول میں سعادت خاں برہان الملک کی صوبہ داری کے زمانے میں پڑی۔نوابین اودھ کے زمانے میں بتدریج اسے فروغ حاصل ہوا اور واجد علی شاہ کے عہد میں نقطۂ عروج پر پہنچ کر زوال حکومت کے ساتھ دبے پائوں مائل بہ زوال ہونے لگی ۔''

ذیل میں ہم محترم قارئین کے لئے لکھنؤ کے آصفی امام باڑے کا پس منظر پیش کریں گے:

شاہان اودھ نے عزاداری کا جو اہتمام کیا وہ قابل داد وتحسین ہے۔شاہان اودھ کے مذہبی رجحان کا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ماہ عزا کا چاند فلک پر نمودار ہوتے ہی فضا مکمل طور پر سوگوار نظر آتی تھی۔لوگ سبز وسیاہ لباس زیب تن کرتے اور اس طرح یہ بات عام ہو جاتی کہ شہید کربلا کی شہادت کے دن آن پہنچے ہیں ۔

شاہان اودھ میں نواب جلال الدین حیدر ملقب بہ شجاع الدولہ جب تخت نشین ہوئے تو عزاداری کو اور فروغ ہوا ۔نواب شجاع الدولہ کے بعد آپ کے بیٹے نواب آصف الدولہ نے عزاداری کو خاص اہمیت دی ۔اسی لئے آپ کو لکھنؤ میںعزاداری کا بانی کہا جاتا ہے ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ نواب آصف الدولہ کے دور میں عزائے سید الشہداء علیہ السلام کاجو فروغ ہوا اس کا عشر عشیر بھی اودھ کے دوسروے حکمرانوں کے دور میں نظر نہیں آتا ہے ۔مشہور ہے کہ نواب آصف الدولہ کے وزیر خاص سرفراز الدولہ نے آپ کو آصفی امام باڑہ کی تعمیر کی طرف متوجہ کیا ۔نواب موصوف اپنی سخاوت اور فن تعمیر میں غیر معمولی دلچسپی رکھنے کے بموجب مشہور زمانہ تھے ۔آپ کے بارے میں یہ مثل مشہور تھی:''جس کو نہ دے مولا ،اُ س کو دے آصف الدولہ۔'' ١٧٨٤ء میں لکھنؤ کی عوام قحط سے پریشاں حال تھی ۔نواب آصف الدولہ نے آصفی امام باڑے کی ایک دیوار کو مشعلوں کی روشنی میں رات کو تعمیر کرنے کرانے کا حکم دیا تا کہ اچھے گھرانے کے وہ لوگ جو قحط زدہ ہیں ،رات کی تاریکی میں اس کام میں مدد کر سکیں اور اس طرح ان کے کھانے کا بندوبست ہو سکے ۔دن میں اس دیوار کو منہدم کردیاجاتا تھا تا کہ نادار لوگ اس کو گرانے اور بنانے میں پیٹ بھرنے کے لئے کمائی کر سکیں ۔(مضمون:شاہان اودھ کی خدمات، عزاداری کے فروغ میں،ص١٥٩)یہ شہرہ آفاق امام باڑہ  ١٧٩٠ء میں ایک کروڑ کی لاگت سے تیار ہوا۔اس کا نقشہ حافظ کفایت اللہ مہندس نے تیار کیا ۔جنہیں کچھ لوگوں نے دہلوی اور بعض دیگر نے شاہ جہاں پوری لکھا ہے)اس کا وسطی ہال ٣٠٣فٹ لمبا،٥٣فٹ چوڑا اور ٦٣فٹ اونچا ہے۔اس کی چھت دنیا کی اعلیٰ ترین چھتوں میں سے ہے جس میں لوہے لکڑی کے بغیر اتنی بڑی چھت کی ڈاٹ جوڑی گئی ہے۔

قابل ذکر ہے کہ اس امام باڑے کے حدود میں ایک ضعیفہ کا مکان بھی آگیا تھا ۔(جس کا نام لاڈو شاخن بیان ہوا ہے۔)لیکن وہ مکان دینے پر راضی نہ تھی ۔چونکہ نوابین اودھ رعایا پرور تھے لہٰذا اس پر کسی طرح کی زور زبردستی نہیں کی گئی ۔خود نواب آصف الدولہ اس کے پاس جاتے ہیں اور وہ چند شرائط کے ساتھ اپنا مکان دینے پر آمادہ ہوجاتی ہے ۔اس کی پہلی شرط تھی کہ اسے کسی اور جگہ دوسرا مکان دیا جائے اور دوسری اہم شرط یہ تھی کہ امام باڑے میں اس کے نام کا تعزیہ رکھا جائے۔نواب نے یہ شرائط منظور کئے ۔اُس کا تعزیہ داہنی طرف کی صحنچی میں خود رکھوایا جو آج بھی اسی مقام پر رکھا جاتا ہے ۔آج ایک طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی لکھنؤ میںپہلی محرم کو آصفی امام باڑے سے اٹھنے والی شاہی ضریح کے ساتھ ساتھ اس ضعیفہ کے نام کی بھی ضریح اٹھائی جاتی ہے ۔جو رومی گیٹ سے ہوتے ہوئے چھوٹے امام باڑے پہنچتی ہے۔

مذکورہ امام باڑے کی تکمیل کے بعد نواب آصف الدولہ ،پانچ لاکھ روپیہ سالانہ اس کی آرائش پر خرچ کرتے تھے ۔سینکڑوں کی تعداد میںسونے چاندی کے چھوٹے بڑے تعزیے بنوائے۔آپ نے سفید اور رنگین جھاڑ فانوس سے اسے زینت بخشی ،یہاں تک کہ دالانوں کی چھتیں اور فرش شیشہ آلات سے پٹے پڑے تھے ۔جب زائرین کو اندر جگہ نہ ملتی تو وہ باہر سے ہی چبوترے پر بیٹھ کر عزاداری کرتے۔اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی ڈاکٹر بلین جب ولایت جانے لگے تو نواب صاحب نے ایک سبز اور سرخ تعزیہ ،جھاڑوں نیز شیشہ آلات کی ان سے فرمائش کی۔جس کی قیمت ایک لاکھ روپئے طے ہوئی مگر ایک تعزیہ ملا اور دوسرے کے آنے سے قبل ١٧٩٧ء میں نواب آصف الدولہ دار بقا کی جانب کوچ کر گئے ۔آپ کو اسی امام باڑے میں سپرد لحدکیا گیا ۔

١٨٢٢ء میں شاہ غازی الدین حیدر کے عہد میں ایک پادری ہیبر بشپ بسلسلہ سیاحت لکھنؤ آئے،انہوں نے اس امامباڑے کی بابت لکھا:''اس پاک و طاہر عمارت میں بکثرت جھاڑآویزاںتھے،جن کی چمک دمک سے آنکھیں خیرہ ہوتی تھیں،جو جھاڑ بہت وزنی اور لٹکانے کے قابل نہ تھیں وہ فرش پر نظر آئیں ۔ان جگمگاتے فرشی جھاڑوں کے نیچے کا حصہ بہت گیردار تھا ۔ان کے بیچ بیچ میں نقرئی مرصع کار روضے ،تعزیے جو ١٠٨ فٹ بلند ہوں گے رکھے گئے تھے ۔ہیبر نے اس امامباڑے کے وضع کو مشرقی گوئتھک کا قطع قرار دیا ہے۔''

نواب آصف الدولہ. بہ نفس نفیس ایام عزا میں امام باڑے کی مجالس میں شریک ہوتے ۔عشرہ محرم میں ملّا محمد خطا  مرثیہ پڑھتے تھے ۔نواب صاحب کی عزاداری کا خاص اہتمام سرکار سید الشہداء اور شہدائے کربلا علیہم السلام سے آپ کی خاص الفت ومحبت کا بیانگر ہے ۔جسے آپ نے اپنے 

والد(شجاع الدولہ)اور والدہ(بہو بیگم)سے ورثہ میں پایا تھا۔نواب آصف الدولہ کے سبب شیعہ علماء نے لکھنؤ کا رخ کیا ۔ جن میں مولوی دلدار علی کا نام نامی سر فہرست ہے ۔جن سے خود نواب صاحب بیحد متأثر تھے۔علامہ دلدارعلی غفرانمآب کو آصفی امام باڑے سے متصل آصفی مسجد کا امام جمعہ وجماعت مقرر کیا گیا ۔(جہاں آج بھی لکھنؤ میں موجود فرزاندان توحید نماز جمعہ ادا کرتے ہیں ۔)اس طرح لکھنؤ میں باقاعدہ طور پر اہل تشیع کی نماز ہونے لگی۔

لکھنؤ میں موجود اہلبیت اطہار علیہم السلام کے نام سے منسوب اس تاریخی مذہبی عمارت میںعاشقان ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام کی کثیر تعداد یہاں پہنچ کربارگاہ مولا میں اپنا سلام نیازپیش کرنا چاہتی ہے۔ حالیہ دنوں میں لکھنؤ کے ڈی ایم صاحب نے اپنے بیان سے ہم سب کو حیرت میں ڈال دیا ۔جس سے ہمارے مذہبی جذبات مجروح ہوئے ہیں ۔ امید کہ ہمارا مذہبی سرمایہ مذہبی ہی رہے گا اور اس امام باڑے کے منبر سے محسن انسانیت کے فضائل ومصائب بیان ہوتے رہیں گے تا کہ دنیا میں حسینیت پہچانی جا سکے اورحسینیت زندہ باد نیز یزیدیت مردہ باد کے نعرے فضاؤں میں گونجتے رہیں   

معنی یزید وشمر کے ظالم لکھے گئے لفظوں کو بھی ملی ہے سزا کربلا کے بعد

(جناب سرور نواب سرور  لکھنوی)

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .