حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،حضرت امام علی رضا(ع) کی نورانی وملکوتی بارگاہ کے مینار جن میں ہر نماز کے وقت اذان کی آواز گونجتی سنائی دیتی ہے حرم مطہر رضوی میں ستونوں پر مشتمل خوبصورت ترین عمارتوں میں سے ہیں جن کی تعمیر کی تاریخ روضہ منورہ کی تاریخ سے ملتی ہے،اگرچہ اس وقت حرم امام رضا(ع) میں 12مینار نظر آتے ہیں لیکن ان میں دو مینار ایسے ہیں جنہیں ہر دور میں یعنی حرم امام رضا(ع) کی تعمیر سے حرم کی توسیع تک دیکھا جا سکتا ہے اور ان کے لئے کئی واقعات تحریر کئے جا سکتے ہیں،یہ دو مینار جن کی ابتدائی تاریخ غزنویوں کے دورحکومت سے ملتی ہے ۔
آستان نیوز کی رپورٹ کے مطابق؛ جناب عزیز ا۔۔۔عطاردی’’تاریخ آستان قدس رضوی‘‘ کتاب میں ان دومیناروں کے بارے میں کچھ یوں تحریر کرتے ہیں ’’آستان قدس رضوی کے سب سے قدیمی و پرانے مجموعہ میں دومینار بھی پائے جاتے ہیں جن میں سے ایک مینار گنبد مطہر کے قریب ہے جبکہ دوسرا مینار اس کے سامنےایوان عباسی کے اوپراور صحن کہنہ(پرانے ترین صحن) کے شمال میں واقع ہے ۔یہ دونوں مینار سونے کی اینٹوں سے ڈھکے ہوئے ہیں ان میں ایسی جاذبیت پائی جاتی ہے کہ امام رضا(ع) کے عقیدت مند اس طر ف کھینچے چلے آتے ہیں، گنبد مطہر کے قریب واقع مینار غالباً گنبد کی تعمیر کے وقت ہی تعمیر کیا گیا ،یہ پانچویں ہجری قمری کے آثار میں سے ہے کیونکہ اس دور کے فن تعمیر میں گنبدوں کے ساتھ ایک مینار بھی تعمیر کیا جاتا تھا اور ہماری اس بات کا ثبوت مشہد مقدس کے قریب سنگ کا گنبد اور مینار ہے جو اب بھی صحیح حالت میں باقی ہے ۔‘‘
جناب عطاردی نے اپنی گفتگو میں پہلے مینار کی تعمیر کے وقت تاریخی غلطی کی کچھ یوں وضاحت دیتے ہوئے لکھا کہ ’’بعض تاریخی کتب میں گنبد مطہر کے قریب واقع مینار کی تعمیر کو صفوی دور حکومت سے منسوب کیا جاتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ شاہ طہماسب صفوی نے اسے تعمیر کیا اور اس پر سونے کی اینٹیں لگائیں ؛ لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے در حقیقت میں یہ سمجھتا ہوں کہ چونکہ شاہ طہماسب کے زمانے میں مینارہ کی مرمت اور بحالی کا کام انجام دیا گیا اس وجہ سے یہ مشہور ہو گیا کہ اسے شاہ طہماسب نے تعمیر کیا ہے اور بعد میں یہ غلطی کتابوں میں بھی درج ہو گئی۔‘‘
البتہ درست یہ ہے کہ تاریخی دستاویزات کے مطابق گنبد مطہر کے قریب واقع مینار کو سلطان مسعود غزنوی کے حکومتی عہدیدار’’سوری بن معتز‘‘ نے تعمیر کروایا جو کہ کئی سال خراسان میں نیشابور کا حاکم بھی رہا ۔بیھقی نے بھی اپنی کتاب ’’تاریخ مسعودی‘‘ میں اس بات پر تاکید کی ہے کہ اس نے حضرت علی بن موسیٰ الرضا(ع) کے مشہد پر منارتعمیر کروایا اور بہت سارےقیمتی موقوفات بھی اس حرم رضوی کے لئے وقف کیں۔
نادر بادشاہ کے توسط سے دوسرے مینار کی تعمیر
اب آتے ہیں دوسرے مینار کی طرف جو آج بھی نادری مینار کے نام سے جانا جاتا ہے اور افشاریوں کی تاریخ کے برابر قدیمی تاریخ کا حامل ہے ، حکایتوں میں کچھ یوں ملتا ہے کہ نادر شاہ افشار جب ایوان امیر علی شیر نوایی کو سونے سے ڈھانپ رہا تھا تو پہلے مینار پر نئے سرے سے سوناچڑھاتا ہے ،درحقیقت جب نادر بادشاہ ہرات کو فتح کرنے کے لئے نکلتا ہے تو اپنا سفر شروع کرنے سے پہلے حرم امام رضا(ع) میں زیارت کے لئے تشریف لے جاتا ہے اور منت مانتا ہے کہ فتح یاب ہونے کی صورت میں صحن مقدس کے ایوان کو جو کہ ’’صفہ امیر علی شیر‘‘ کے نام سے مشہور تھا اور اسی طرح سرمبارک کے اوپر والے مینار کو سونے سے مزیّن کرے گا۔نادر بادشاہ کا یہ سفر تقریباً ایک سال تک جاری رہتا ہے اور وہ ہرات کی سرزمین کو قندھار تک واپس اپنے قبضہ میں لے لیتا ہے اور بالاخر 1144 ہجری قمری کے آخر میں واپس مشہدمقدس پہنچتا ہے ۔
نادر شاہ کے سپاہیوں کی شہر میں آمد پر شہر کو سجایا جاتا ہے ایک ہفتہ تک عوامی سطح پر جشن منایا جاتا ہے جس کے بعد نادر شاہ خراسان کے بزرگوں اور مشہد مقدس کے مختلف علاقوں کے سرداروں کو چہار باغ نامی جگہ پر حاضر ہونے کی دعوت دیتا ہے اور ان سب کو اگلے تین سالوں کا ٹیکس معاف کرتے ہوئے حکم دیتا ہے کہ حرم امام رضا(ع) کے مینار کو سونے سے تعمیر کیا جائے ۔
دوسرے مینار کی تعمیر کا واقعہ ’’تاریخ عالم آرای نادری‘‘ کتاب کا مؤلف کچھ یوں تحریر کرتا ہے ’’نادر نے مینار کو سونے سے مزیّن کرنے کے بعد کہا کہ مناسب یہ ہے کہ گنبد مطہر کے سامنے ایک اور مینار بھی تعمیر کیا جائے ‘‘ اور پھر اس طرح سے دوسرے مینار کو بھی تعمیر کیا گیا۔
نادر شاہ کے دور حکومت کا ایک مؤرخ جو مینار کی تعمیر کا عینی گواہ بھی ہے اپنی یادداشتوں میں کچھ یوں تحریر کرتا ہے ’’میں ہر روزدیکھنے جاتا تھا ،سب سے پہلے انہوں نے زمین کو اتنا گہرا کھودا کہ جب نیچے کام کرنے والے مزدوروں کو دیکھا جاتا تو وہ چھوٹی چڑیوں کی طرح نظرآتے تھے‘‘
اس مینار کو تعمیر ہوتے ہوتے ایک سال کا عرصہ لگ گیا،فن تعمیر کے معمار جناب علی نقی مشہد ی کی سربراہی اور نگرانی میں کتنے ماہر معماروں نے مل کر اسے تعمیر کیا، تاریخی واقعات میں کچھ یوں ملتا ہے کہ نادر شاہ کے دور حکومت کے معماروں نے مل کر ایوان عباسی کے پچھلے حصے کو دوسرا مینار تعمیر کرنے کے لئے انتخاب کیاجو کہ بظاہر پہلے مینار کی جگہ کی گنبدکی نسبت کوئی مماثلت یا ہم آہنگی نہیں رکھتا تھا لیکن نئے مینار کی تعمیر کے بعد کم سے کم حرم کے جنوب مشرقی حصے سے ( موجودہ امام رضا(ع) روڈ کی جانب سے)ایسا لگتا تھا کہ نیا اور پرانا مینار سنہری گنبد کے اطراف میں واقع ہیں۔
شیخ بہائی(رح) سے منسوب اس شاہکارکی حقیقت
ان دو میناروں کی قدمت اور تاریخ کے علاوہ ان کے فن تعمیر میں ایک عجیب و غریب خصوصیت پائی جاتی ہے جسے حرم مطہر کے بہت سارے مؤرخین بشمول مرحوم عطاردی اور احتشام کاویان نے بھی ذکر کیا اور یوں وضاحت کی ’’اگرچہ دونوں میناروں کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ پایا جاتا ہے لیکن جو افراد حرم مطہر کے جنوب سے داخل ہوتے ہیں (خصوصاً امام رضا(ع) روڈ کی جانب سے حرم امام رضا(ع) میں آنے والے افراد) یہ خیال کرتے ہیں کہ گنبد مطہر ان دو میناروں کے درمیان واقع ہے ، اب یہ معلوم نہیں ہے کہ دوسرے مینار کا بانی اور معمار کا کوئی خاص ہدف و مقصد تھا اور وہ چاہتے تھے کہ یہ دوسرا مینار اس طرح سے تعمیر ہو یا تعمیر کے بعد ایسا دیکھنے میں آیا وعلمہ عند ا۔۔۔‘‘یہ بھی آپ کو بتاتے چلیں کہ ان دو میناروں کی ہم آہنگی مماثلت اور تقارن کی وجہ سے اگرچہ یہ دونوں مینار علیحدہ علیحدہ جگہ پر ہیں بہت سارے افراد یہ خیال کرتے ہیں کہ دوسرا مینارشیخ بہائی(رح) کے علم اور فن معماری کا شاہکار ہے حالانکہ اس بات کی کوئی تاریخی دستاویز موجود نہیں ہے ۔
سونے کے دومیناروں پر تحریری کتبے کے نقوش
پہلے مینار کو جسے چھت کی جانب سے مٹی کی اینٹوں سے تعمیر کیا گیا ہے اور اس پر کاشی و ٹائل لگائی گئی ہے اور اس کاشی اور ٹائل سے اوپر تک سونے کی اینٹوں سے ڈھانپا گیا ہے ماذنہ کے نیچے بھی ایک کتیبہ ہے جس پر ثلث رسم الخط کے ساتھ پیغمبر گرامی اسلام(ص) اور آئمہ معصومین(ع) پر صلوات نقش کی گئی ہے اور اس کے بعد یہ تحریر ہے ’’کتبہ بھا الدین محمد الخادم سنہ1142 ہجری قمری‘‘۔اور پھر آیہ شریفہ« انا...یمسک والسماوات و الارض ان تزولا»درج ہے ۔مینارکے نچلے حصے پر جہاں کاشی کاری کی گئی ہے اینٹوں کے اطراف میں بنائی رسم الخط کے ساتھ جلی حروف میں آیہ شریفہ« انا فتحنا لک فتحا مبینا» تحریر ہے ۔
دوسرا مینار جو کہ ایوان عباسی کے اوپر اورصحن انقلاب کے شمال میں واقع ہے مینار کے اوپر والے حصے پر طلاکاری(سونے کی اینٹے) اور مینار کے نچلے حصے پر کاشی کاری اور چینی کی اینٹیں لگی ہیں جو کہ پہلے مینار کی طرح ہیں ، اس کے سونے والے حصے پر جو کتیبہ ہے اس پر ثلث رسم الخظ کے ساتھ آئمہ معصومین(ع) پر صلوات درج ہے اور اس کے آخر میں عبارت «في ذيقعدة الحرام سنة 1145» تحریر ہے ۔ اسی طرح اس عبارت کے نچلے حصے میں نستعلیق خفی رسم الخط کے ساتھ جملہ’’ عالي جناب سلالة السادات العظام امير سيد احمد الحسيني سركشيك و كلب عتبة علية روضة رضوية محمد جعفر خادم في شهر رمضان المبارك 1146‘‘ لکھا ہو اہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس کتیبے کو حرم کے خادم سید احمد الحسینی اور محمد جعفر خادم کے تعاون سے اس جگہ پر نصب کیا گیا ہے ۔
انقلاب اسلامی کے بعد میناروں کی سرنوشت
یہ مینار جو کہ کم موٹائی کی وجہ سے قدرتی عوامل کے اثرات کی وجہ سے خستہ حال ہو چکے تھے انقلاب اسلامی کے بعد انہیں دوبارہ سے سونے کی اینٹوں کے ساتھ تعمیر کیاگیا، اس کام کے لئے سب سے پہلے پرانی اور خستہ حال سونے کی اینٹوں کو اتارا گیا اور اس کے نیچے کنکریٹ ڈالا گیا اس کے بعد ان میناروں کی سطح پر دوبارہ سے الکٹرولٹ طریقے سے تانبے کے اوراق لگائے گئے ،تقریبا ملی میٹر کے سولہ ہزارویں حصے کو سونےسے ڈھانپا گیا تھا جب کہ اس وقت تقریبا 145 مربع میٹر پر ان میناروں پر سونے کی اینٹیں موجود ہیں۔