حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، نورانی گنبد کے اطراف میں نصب لوہے کی باڑ کو مرمتی کام مکمل ہونے پر ہٹا دیا گیا تاکہ حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی ولادت با سعادت کے موقع پر ایک بار پھر سے امام روؤف کے زائرین اپنی آنکھوں کو نورانی گنبد کی زیارت سے روشن کر سکیں۔
حرم مطہر رضوی کے نورانی گنبد کو چمکانے اس کی پالش اور صفائی کا کام ایک روایتی تقریب ہے جسے پروگرام کے مطابق ہر تین سال میں ایک بار انجام دیا جاتا ہے البتہ اس سال گنبد کی مرمت کی وجہ سے یہ کام دوگنا ہوگیا۔
گنبد پر نصب اینٹوں کے گرد آلود ہونے کی وجہ سے گنبد مطہر کی مرمت ضروری تھی، ہوا کی آلودگی اور ہوا میں پائے جانے والے آلود ہ ذرات وہ جملہ اہم وجوہات تھیں جن کی وجہ سے گنبد مطہر پر نصب اینٹیں سیاہ اور آلودہ ہوگئی تھیں جس کی وجہ سے فوری طور پر گنبد مطہر کی مرمت کا حکم دیا گیا۔
گنبد مطہر کی اینٹوں کے پیچھے استعمال ہونے والا تانبا ہوا کی آلودگي اور آکسیڈیشن کی وجہ سے خراب ہوگیا تھا جس کی وجہ سے اینٹیں بھی متاثر ہو رہی تھی اسی وجہ سے گنبد مطہر کی مرمت کی ضرورت مزید بڑھ گئی تھی۔
مرمت کرنے والی ماہر اور بہترین ٹیم کی سرگرمیاں
پچیس افراد پر مشتمل ماہر اور بہترین ٹیم نے گنبد مطہر کی مرمت، دھلائی اور اسے چمکانے اور پالش کا کام انجام دیا ۔
گنبد مطہر کی اینٹوں کی صفائی اور پالش کا کام اس پروجیکٹ کا نہایت اہم اور حساس مرحلہ تھا جسے اس ماہر ٹیم کے افراد نے بغیر کسی ایسڈ ، لوہے کے برش اور بغیر رگڑے ہوئے اس کا کام کو نہایت احسن انداز میں انجام دیا اور مرمت کے دوران کسی بھی اینٹ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا ۔
مرمت کی تفصیلات
دوسرے مرحلے میں اینٹوں کی فلنگ کے لئے جدید علم کا استعمال کرتے ہوئے ایسے مواد اور مصالحے کا استعمال کیا گیا جوکہ سردی و گرمی میں یا کسی بھی موسم میں متاثر نہ ہوں اور ماضی کی طرح انبساط و انقباض سے محفوظ رہیں گے۔
تیسرے مرحلے میں گنبد مطہر کو عرق گلاب اور گلاب کی پتیوں سے دھویا گیا جس سے اینٹوں کی مزید صفائی اور ان کے اندر مزید چمک پیدا ہوئي ۔ گنبد مطہر کے اطراف میں نصب کتیبہ کو جوکہ مختلف ماحولیاتی وجوہات کی وجہ سے خراب ہو گیا تھا اس کی رنگ کاری کا کام نہایت دقت و ظرافت سے انجام دیا گیا تاکہ سردی و گرمی میں خراب ہونے سے محفوظ رہے۔
گنبد مطہر کی مرمت اور پالش یا اس کو چمکانے اور دھلائی کا کام چالیس دن تک شب و روز چلتا رہا اور حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی ولادت کے موقع پر پایہ تکمیل کو پہنچ گيا م ۔