حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، قم المقدسہ میں حضرت ابوطالب حامی پیغمبر اسلام(ص) بین الاقومی کانفرنس کی ۲۷ویں علمی نشست : شعب ابی طالب میں کردار ابی طالب کے عنوان سے منعقد کی گئی۔
اس علمی نشست میں حجج اسلام والمسلمین سید شاید جمال رضوی، سید حیدر عباس زیدی، سید وقار احمد کاظمی، کفایت حسین قمی و غلام پنجتن آعظمی نے مذکورہ عنوان پر روشنی ڈالی اور علمی گفتگو کی۔
حجت الاسلام والمسلمین سید وقار احمد کاظمی کی تلاوت کلام اللہ المجید سے اس پروگرام کا آغاز ہوا اور پھر حجت الاسلام و المسلمین سید حیدر عباس زیدی نے اپنی نظامت کے فرائض انجام دیئے۔
انہوں نے اپنی ابتدائی گفتگو میں مقررین کا تعارف کراتے ہوئے نشست کے اسباب واہداف کی جانب اشارہ کیا اور مختصرا گوشہ کی جانب اشارہ کیا ۔
حجت الاسلام والمسلمین شاہد جمال رضوی نے نشست کے موضوع کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: نشست کا موضوع بہت ہی اہم اور تحقیق طلب ہے، جناب ابوطالب تاریخ اسلام کی انتہائی مظلوم شخصیت کا نام ہیں، جبکہ میرے خیال سے تاریخ اسلام کا سب سے درخشاں کردار جناب ابوطالب ہے، کیوں کہ اگر اپ کا کردار نہ ہوتا تو اسلام مٹ جاتا، باقاعدہ مورخین اور ارباب نظر نے اسے تحریر کیا ہے۔
جہاں اس کردار کو ابھارنا اور درخشاں کرنا چاہئے تھا وہیں جناب ابوطالب کی مظلومیت یہ ہے کہ اس کردار کو دبایا گیا، جان بوجھ کر اپ کی فداکاریوں اور قربانیوں کو مٹانے اور دبانے کی کوشش کی گئی ہے۔
انہوں نے اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا: جناب ابوطالب غیروں کی طرف سے بھی مظلوم ہیں اور اپنوں کی جانب سے بھی، غیروں نے دشمنی میں جناب ابوطالب کے اوپر ظلم کیا مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ اپنوں نے بھی ان پر ظلم کیا، اور وہ ظلم یہ ہے کہ تاریخ اسلام کے ایک اھم کردار کی شناخت حاصل نہیں کیا اور یہ ظلم ہے، کسی شخصیت کو اس کے مقام سے نیچے گرانا یا کما حقہ اس کی معرفت حاصل نہ کرنا یہ اس شخصیت کے حق میں ظلم ہے، اور اس کی بنیاد وہ شوشا ہے کہ جو مخالفین کی جانب سے چھوڑا گیا، اور وہ شوشا بھی عجیب و مضحکہ خیز ہے کہ جناب ابوطالب کافر ہیں، اچھا شوشا چھوڑنے کا فائدہ بھی ہوتا ہے اور نقصان بھی، شوشا چھوڑنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ انسان کو اصلی بات اور محور سے دور اور منحرف کردیا جائے، جن خطوط پر انسان چل رہا ہے ، اس سے موڑ کر کے دوری جانب لایا جائے ۔
سرزمین ہندوستان کے اس عالم دین نے کہا: جناب ابوطالب کا کردار نہایت ہی درخشاں تھا اسی بنیاد پر ان کے کفر کا شوشا چھوڑا گیا تاکہ اپ کے درخشاں کردار پر پردہ ڈالا جاسکے، شوشا چھوڑنے کا اہم نقصان یہ ہوا کہ مورخین کی ایک کثیر تعداد نے جو جناب ابوطالب پر کتابیں لکھیں کہ جن کی تعداد بھی کافی زیادہ ہے، ان میں سے اکثر کتابوں یا ایک بڑی تعداد کا موضوع ایمان ابوطالب ہے، کیوں کہ اس شوشے کا جواب دینا مقصود تھا، اس لحاظ سے سب کا ہم و غم یہ رہا کہ ایمان جناب ابوطالب کو ثابت کیا جائے ، یقینا اس شوشے کا جواب بہت ضروری تھا مگر آیا سارے مورخین کے لئے ضروری تھا کہ وہ فقط و فقط اسی موضوع پر متمرکز رہتے، یقینا ایمان جناب ابوطالب اور کفر جناب ابوطال کے الزام کا جواب ضروری تھا مگر اس کی وجہ سے جناب ابوطالب کے دیگر کردار خفا میں چلے اور ان پر پردہ پڑگیا اور اسے بہت زیادہ اشکار نہیں کیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا: شوشے کا ایک فائدہ بھی ہوتا ہے اور نقصان بھی، شوشے میں درخشاں پہلو پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے یہ تو نقصان ہے مگر فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس شوشے کے نتیجہ میں جو کام ہوتا ہے وہ بہت اہم ہوتا ہے، ایک چھوٹی سی مثال دوں کہ تحفہ اثنا عشریہ لکھی گئی اور لکھنے والوں کو اس بات کی توقع نہیں رہی ہوگی کہ اس کتاب کا جواب لکھا جائے گا، جواب میں اتنی کتابیں لکھی گئی کہ ایک عظیم علمی ذخیرہ وجود میں اگیا کہ علمائے عراق و ایران اج بھی اس سے بخوبی استفادہ کرتے ہیں کہ اگر اسے وسعت دیا جائے تو بخوبی قابل استفادہ ہوگا ۔
مولانا شاہد جمال نے کہا: جناب ابوطالب کا ایمان نصف النھار کے مانند ہے اسے اثبات کی ضرورت نہیں ہے، اس کے علاوہ اگر کردار جناب ابوطالب کا تجزیہ و تحلیل کہا جائے تو واقعا یہ کردار بے حد درخشاں ہے، یہاں پر ایک جملہ کہنا ضروری ہے کہ کفر کا فتوا اس پر لگایا گیا جس کی انگلی پکڑ کر تہذیب انسانیت نے چلنا سیکھا، جناب ابوطالب مربی انسانیت کے اس وقت سہارا بنے جب کوئی انہیں سہارا دینے والا نہ تھا، جناب علامہ طباطبائی نے بھی اسی کردار کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہا کہ اگر ھجرت کے دس سال پہلے کے کردار کو اور دس سال کے بعد تمام مسلمانوں کے کردار کو یکجا کیا جائے تو یہ دس سال کا جناب ابوطالب کے کردار تمام مسلمانوں کے کردار پر بھاری پڑ جائے گا، اس کردار کا ایک نمونہ ہے شعب ابوطالب میں کردار جناب ابوطالب ۔
انہوں نے کہا: اس سے پہلے اور اس کے بعد بھی جناب ابوطالب کا کردار بہت اہم رہا ہے، لیکن اگر ان تین سالوں اور برسوں کا بھی تجزیہ کیا جائے تو یہی تین سال اپ کے ایمان کو ثابت کرنے کے لئے کافی اور بہت ہیں، لہذا ضروری ہے کہ اس موضوع کو اشکار کیا جائے اور اس پر گفتگو کیا جائے اور الحمد للہ مجمع جھانی اہلبیت نے یہ زمینہ فراھم کیا اس موضوع پر گفتگو ہو اور بعض محققین آکر اپنے نظریات پیش کریں۔
مولانا شاہد جمال تاکید کی: ہم دیکھتے ہیں کہ شعب ابوطالب کی سہ سالہ زندگی کے حوالے سے برصغیر کے لوگوں کو بہت زیادہ معلومات نہیں ہے اس مسئلہ پر گفتگو بھی نہیں ہوئی ہے حتی اگر گفتگو ہوئی بھی ہو تو جوانوں تک نہیں پہونچایا گیا ہے، میں جوانوں سے درخواست گزار ہوں کہ اس موضوع کے درپہ رہیں اور اس سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کریں۔
انہوں نے بیان کیا: اس گفتگو کے مختلف موضوعات ہیں جس میں سب سے پہلے شعب کے معنی اور مفہوم اور پھر شعب ابی طالب کو شعب ابی طالب کیوں کہا جاتا ہے مطلب اس کی وجہ تسمیہ، پھر شعب ابی طالب کہاں ہے اور شعب کے مصائب کا پیش خیمہ کیا ہے یعنی اس ناکہ بندی کی بنیاد اور اس کا پیش خیمہ کیا ہے، یعنی شعب ابی طالب کے علل و اسباب کیا تھے اور شعب ابی طالب کی سختیاں اور مشکلات کیا تھیں، اس تین کی سال کی مدت میں جناب ابوطالب کا کیا کردار رہا، مطلب اقتصادی ناکہ بندی، روحانی ناکہ بندی، جسمانی ناکہ بندی۔
اس ہندوستانی محقق نے کہا: اس سلسلہ میں بہت ساری روایتیں موجود ہیں کہ ضروری اور روز مرہ کے وسائل تک دسترسی محدود تھی، روز مرہ کے مسائل و امکانات شعب میں نہیں پہونچائے جاسکتے تھے، یا تحفظ رسالت و اسلام میں جناب ابوطالب کا نقش آفرین کردار، شعب کی حفاظت و رسول اسلام کی حفاظت میں پہرہ دلوانا، بستر مرسل اعظم پر اپنے بچوں کو سلانا وغیرہ ، ناکہ بندی کے خاتمہ پر جناب ابوطالب کے ذریعہ اسلام کی کامیابی و پیروزی کا اعلان کیا جانا اور خود مرسل اعظم کی نگاہ میں جانب ابوطالب کی قدر و اھمیت، جس سال اپ کا انتقال ہوا اس سال کو اپ نے عام الحزن قرار دیا، یہ تمام موضوعات ہیں جس پر بحث و گفتگو کی جاسکتی ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔