۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
تاریخ مدرسہ سلطان المدارس و جامعہ سلطانیہ لکھنؤ

حوزہ/ علامہ حسن عباس فطرتؔ: ’’سلطان المدارس ۔ جب بھی کہیں بھی یہ نام کان میںپڑجاتا ہے تو اچانک ماضی کی طویل رات یادوں کے ان گنت جگنوؤں سے روشن ہو جا تی ہے ‘‘۔

حوزہ نیوز ایجنسی |

تحریر : حجۃ الاسلام مولانا ابن حسن املوی، صدرالافاضل،واعظ

تاثرات: سلطان المدارس، کچھ یادیں کہر آلود حافظے سے۔ از : معروف ادیب و بزرگ صحافی علامہ حسن عباس فطرتؔ ۔پونہ

تاثرات بابت کتاب ’’ تاریخ مدرسہ سلطان المدارس و جامعہ سلطانیہ لکھنؤ‘‘(جلد اوّل)

سلطان المدارس ۔ جب بھی کہیں بھی یہ نام کان میں پڑجاتا ہے تو اچانک ماضی کی طویل رات یادوں کے ان گنت جگنوؤں سے روشن ہو جا تی ہے ۔ نہ جانے کتنے پردے گرتے ہیں اور پھر اٹھ جاتے ہیں۔ سائے، پرچھائیوں کا راج ہوجاتا ہے۔ انہیں کے بیچ انسانوںکی چہل پہل دکھائی دیتی ہے جس میں بعض چہرے اپنی تابناک نورانیت کے باعث پہچان میںنہیں آتے۔ تہذیب کا ایک حسین مرقع، ثقافت و روایت کا انمول خزانہ ،دو قدیم کھجور کے سوکھے درختوں کی دربانی میںایک عالیشان بلند و بالا خوبصورت عمارت ،چاروں طرف پھیلا ہوا سبزہ، اندرون بلڈنگ ایک بڑے ہال میں بچھے ہوئے بڑے بڑے تخت جس پر سفید دودھیا چادر ( جسے چاندنی کہا جاتا تھا) قرینے سے بچھی رہتی، ارد گرد کے میدان میںچھائی ہوئی کروندے کی بیل ، اکاد کا بیل کیتھ کے درخت اس پر نشانہ بازی میںمصروف چند نوخیز لڑکے، لق و دق میدان کھیل کود اور راہ گیروں کی مدد کے لئے۔ ہال کے اندر تخت پر بیٹھے استاد بھی شاگرد بھی۔ شمالی ہند و پنجاب و سرحد کے طالب علم اپنی اپنی کتابیںکھولے آمد نامہ ومیزان و منشعب کی گردان دھراتے ہوئے اور مولوی صاحبان ان کی رہنمائی و دیکھ ریکھ میںمصروف۔ علوم اسلامی کا یہ قدیم مرکز اپنی ایک تاریخ رکھتا ہے۔ یہاں پر عربی و فارسی کی ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کیلئے امیر ، غریب ، راجہ ، پر جا نواب و تعلقد ار سب آتے تھے۔ ان میںکے بعض پڑھ لکھ کر عالم فاضل بھی ہوئے اور صاحب تصنیف و تالیف بھی۔ عام طالب علموں کا کھانا سادہ لباس معمولی ہوتا مگر اس میںکمی وبیشی صاحبان ثروت کے لئے ممنوع نہ تھی۔ مدرسین و اساتذہ کا کیا کہنا۔ بلند مرتبہ و نیک نام جس کا ہر فرد انگوٹھی کا نگینہ اپنے فن میں کامل معروف و مشہور ان کے دم سے مدرسہ کا نام بھی تھا اور رونق بھی خدا ان کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس کی راحت و آرام سے نوازے۔

۱۸۵۷ء؁ کی بلاء و آفت سے کچھ پہلے یہ مدرسہ علمائے خاندان اجتہاد کی پیش نہاد اورشاہان اودھ کی سرپرستی میں[مقبرہ سعادت علیخاں میں اور پھر] امامباڑہ آصفی میںقائم ہوا تھا۔ لکھنؤ کی تاراجی اور سب کچھ درہم و برہم ہوجانے کے بعد کامل ۳۳ برس تک یہ مدرسہ بے والی و وارث رہا کیونکہ علما ء اعلام بھی اس انقلاب کا شکار ہوکر ادھر ادھر ہوگئے تھے۔ حالات کے سدھر نے کے بہت دن بعد ایک بزرگ عالم و مرجع [جناب]آغا ابو صاحب علیہ الرحمہ والرضوان کے اثرات و سخت جدوجہد سے اس مدرسہ کا احیاء ہوا۔ کنگ جارج میڈیکل کالج کے سامنے افتادہ زمین پر وقف حسین آباد کی مالی مدد سے اس کی شاندار بلڈنگ بنی تب سے آج تک یہ مدرسہ پوری شان و شوکت سے مرحوم[جناب] آغا ابو صاحب کی اولاد امجا د و اخلاف کے انتظام و انصرام میں چل رہا ہے۔ سینکڑوں مشہور عالم دین مبلغ و واعظ یہاں سے فارغ التحصیل ہوکر آسودۂٗ خاک ہوچکے ہیں پھر بھی ان کا نام زندہ و باقی ہے ۔ پچھلے برسوں میںطلاب کی جو تعداد تھی آج تین گنا طالب علم قیام و طعام کی سہولت کے ساتھ تعلیم حاصل کررہے ہیں۔

ہم نے اپنی طالب علمانہ زندگی کے دو قیمتی سال یہاںگذارے اورمدرسہ کے مدرسین کرام کی شفقتوں سے بہرہ یاب ہوئے۔ الہ آباد بورڈکا منشی پاس کیا اور وثیقہ اسکول فیض آباد میںپڑاؤ لیا۔ وہ زمانہ ۴۷۔۴۶ء؁ کا تھا۔ جو سلطان المدارس کا زریں دور تھا عالی رتبہ اساتذہ کرام کے ساتھ طلبا میںمولانا شبیہ الحسن نونہری، مرتضیٰ حسین فاضل ، سبط محمد اکبر پوری ، مولانا غلام مرتضیٰ صاحب، مولانا کلب عابد صاحب ، مولانا وصی حیدر کراروی وغیرہ۔ جو بعدمیںمفسر، مورخ ، ادیب و حکیم اور مختلف علوم و فنون کے ماہرما نے گئے۔ اس زمانے میں اساتذہ کے ساتھ ساتھ سینیئر طلاب بھی اپنے خوردوں کے ساتھ لطف و مدارات اور برابری کا برتاؤ رکھتے تھے۔ سلطان المدارس اور مدرسہ ناظمیہ دونوںملت جعفریہ کی متاع بے بہا ہیں اورعمر کے لحاظ سے دونوںمیںبہت زیادہ فرق نہیں۔ان دونوں مدرسوں نے ملک و ملت کے بہت سے بڑے بڑے کام کئے ہیںآج بھی ملت کی توجہ اس کی طرف ہے تو مگر کم۔ خداوند عالم ان کو آفات دنیا سے محفوظ رکھے اور جو لوگ اس کے تعارف و ترقی میں حصہ لیتے رہتے ہیں ان کو شاد و آباد رکھے اور مرحومین کو غریق رحمت فرمائے۔

احقر کو دونوںمدرسوں میں رہ کر استفادہ علمی کا موقع ملا اس کی داستان مختصر نہیں ہے ۔موقع ملنے پر پھر کبھی بشرط حیات اسے دہراؤں گاکیونکہ وہ بہت دلچسپ ہے ابھی تو میرے کانوںمیںسلطان المدارس کے گھنٹے کی آواز آرہی ہے یہ گھنٹہ دن رات گھنٹے گھنٹے پر بجتا رہتا ہے یہ تاریخی گھنٹہ ہے جو کتب خانہ کے سامنے آویز اں ہے اسکا بجانے والا چپراسی بھی اتنا ہی پرانا اور عمر دراز ہے رات کو سناٹے میںمدرسہ کے ارد گرد ایک آواز یاعلی حیدر کی گونجتی رہتی ہے۔ یہ پکارنے والا اپنی رعب دار آواز سے ارد گرد کے لچے لفنگوں کو اپنی موجودگی بتاتا رہتا ہے۔ ایک گل محمد صاحب بھی یاد آتے ہیں روایتی پگڑی ڈھیلی ڈھالی شلوار پاؤں میں پیشاوری چپل پہنے سر پر دھلے ہوئے کپڑوں کی بڑی گٹھری رکھے ہر کمرے میںجاتے اور سب سے میلے کپڑے لے کر دھلے ہوئے جوڑے بانٹتے اور چل دیتے۔

مدرسہ ناظمیہ میںایک ناقابل فراموش ملازم ذاکر بھائی تھے مٹھی بھر کے آدمی سر پر مگجی دوپلی ٹوتی پاجامہ کی جگہ لنگوٹ ننگے بدن ایک آنکھ سے معذور مگر اپنے کام میں ماہر و استاد۔ اکیلے بلا مدد گار کے چالیس پچاس بچوںکا کھانا ( روٹی ۔ سالن) تیار کردیتے وہ بھی چٹکی بچاتے نہ ناغہ کرتے نہ تاخیر ان کی شفقت ومحبت سے ہر نیک و بد کا سرجھکا رہتا کوئی کچھ دے دے تو انکار نہ کرتے مگر کبھی کسی سے سوال نہیں کیا۔ ایک اور بزرگ وہاں تھے منشی حسن جعفر مرحوم جو رات، دن خواب و خیال میںصرف مدرسہ ناظمیہ کے تصور میںکھوئے رہتے ۔ عالی شان مدرسہ تعمیر کرادیا مگر آنکھ بند ہوئی تو پھوس کی کٹی میں۔ ان کی شخصیت بے مثال تھی۔ طلاب ان کی عزت و احترام اساتذہ جیسی کرتے تھے۔

سلطان المدارس میںچار دیواری بن گئی ہے اور وہ راہ گیروں کی من مانی سے محفوظ ہے مدرسہ ناظمیہ کی بھی توسیع ہوئی ہے۔ طالب علم دونوںمدرسوں میں خاصی تعداد میں ہیں۔ سلطان المدارس میںنسبتاً آزادی و سہولت زیادہ ہے ہمارے زمانے میںسلطان المدارس میںدرجہ ادبیات مولانا ابن حسن نونہروی کے ذمہ تھا جو خطابت کے بادشاہ تھے۔ معقولات مولانا عبد الحسین صاحب سنبھالے تھے جو اپنے فن و کمال میںمنفرد تھے۔ فقہ والٰہیات کا درس مولانا حسین صاحب مجتہد دیتے تھے آل باقر العلوم سید محمد صاحب مجتہد پرنسپل تھے جن کا علم و تقویٰ مشہور تھا۔ ناظمیہ مدرسہ ایک سے بڑھ کر ایک صاحب کمال تھے مفتی اعظم سید احمد علی صاحب تنہا سرپرست و پرنسپل تھے۔ ناظمیہ ان کے تقدس و علم و فضیلت سے برسہا برس چلتا رہا ہر چیز اصول کے مطابق ہوتی تھی آمدنی کوئی مستقل نہیں تھی مگر تنخواہ پورے اسٹاف کو پہلی تاریخ ( انگریزی) کو مل جاتی تھی۔ طلاب کی کفالت و مدد بھی دوسرے طریقوں سے کرتے تھے آج کل مفتی صاحب کے قائم مقام امیر العلماء مولانا حمید الحسن صاحب ہیں اور مدرسہ کئی اعتبار سے ترقی پر ہے۔ خداتمام بزرگ علما کے درجات بلند کرے اور ہمیں ان کی تاسی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

مولانا ابن حسن املوی واعظ بھی دل کی گہرائیوں سے دعاوَں کے مستحق اورقابل داد ولائق مبارکباد ہیں جنھوںنے اس سے قبل فی سبیل اللہ ،،تاریخ مدرسۃ الواعظین لکھنو،،بڑی سائز کی تین ضخیم جلدوں میںترتیب دیا ہے اور اب ،، تاریخ مدرسہ سلطان المدارس و جامعہ سلطانیہ لکھنو،، مرتب کر رہے ہیں۔ بیشک اس طرح کا کام نہایت محنت و مشقت اور دقت کا ہو تاہے،مگر انشاء اللہ یہ ان کا اہم اوریادگار علمی و قلمی کارنامہ ثابت ہوگااور نئی نسل کے لئے تاریخی معلوماتی سرمایہ میں اضافہ کا باعث بنے گا ۔

حسن عباس فطرت

۱۰/فروری ۲۰۱۶ء

(ماخوذ از کتاب ’’ تاریخ مد رسۂ سلطان المد ارس و جامعۂ سلطانیہ لکھنؤ،[جلد اول]صفحہ10)

تاثرات بابت کتاب ’’ تاریخ مدرسہ سلطان المدارس و جامعہ سلطانیہ لکھنؤ‘‘(جلد اوّل)

نام کتاب : تاریخ مد رسۂ سلطان المد ارس و جامعۂ سلطانیہ لکھنؤ،[جلد اول]

مؤلف : عمدۃ الواعظین عالیجناب الحاج والزائر مولا نا شیخ ابن حسن املوی کربلائی صاحب قبلہ (صدرالافاضل،واعظ)

پروف ریڈنگ : حجۃ الاسلام عالی جناب مولا شیخ مسرور فیضی املوی ’’قمی‘‘

کمپیوٹر کمپوزنگ : مولانا محمد رحمت اللہ مصباحی ۔مبارکپور،اعظم گڑھ و مولانا محمد وصی اختر معروفی لکھنؤ

ناشر : مرکز بین الاقوامی نور میکرو فیلم ۔ایران کلچر ہاؤس۔نئی دھلی۔ھند

مطبوعہ : نور انٹر نیشنل مائیکرو فلم سینٹر۔ایران کلچر ہاؤس۔نئی دھلی۔ھند

ایڈیشن : پہلا

تعداد کتاب : 500

تعداد صفحات :446

تقطیع (سائز) : 20X30/8

سنہ اشاعت :2016

نوٹ :کتاب ’’ تاریخ مدرسہ سلطان المدارس و جامعہ سلطانیہ ،لکھنؤ ‘‘ 20X30/8 سائز کی تین ضخیم جلدوں میں مولانا ابن حسن املوی (صدرالافاضل،واعظ) نے مرتب کیا ہے جو انٹرنیشنل نورمائکرو فلم سینٹر ،ایران کلچر ہاؤس ،نئی دہلی کی جانب سے نہایت دیدہ زیب و خوشنما زیور طبع سے آراستہ و پیراستہ شائع ہوچکی ہیں۔

{ خواہشمند حضرات درج ذیل پتہ پر رابطہ کرسکتے ہیں:۔ }

انٹر نیشنل نو ر مائکرو فلم سینٹر ۔ ایران کلچر ہاؤس ،۱۸،تلک مارگ،نئی دہلی۔ہندوستان

Phone:+91-11-23383116,E-Mail:noormicro@yahoo.com / indianmanuscript@gmail.com

http://indianislamicmanuscript.com

۔۔۔۔۔۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .