حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،لکھنؤ/یکم محرم الحرام: امام باڑہ غفران مآب میں محرم الحرام کی پہلی مجلس کو خطاب کرتے ہوئے مولانا سید کلب جواد نقوی نے کہاکہ عزائے امام حسینؑ دن بہ دن ترقی کررہی ہے اور یہ کسی کے دبانے سے کبھی ختم نہیں ہوگی ۔اسے جتنا دبایا جائے گا اتنا ہی اس میں اضافہ ہوگا ۔عزاداری کو ہم نے زندہ نہیں رکھا بلکہ عزاداری نے ہمیںزندہ رکھا ہے۔
مولانا نے روایت کے مطابق پہلی مجلس میں آیت العظمیٰ سید دلدار غفران مآبؒ اور خاندان اجتہاد کے علمی و عزائی خدمات کا مختصر تعارف پیش کیا ۔مولانانے کہاکہ آج برّصغیر میں جہاں بھی اردو بولنے والے لوگ موجود ہیں،وہاں عزاداری جس شکل میں منائی جاتی ہے ،اس کے خدوخال حضرت دلدار علی غفران مآبؒ نے معین کیے۔
مولانا نے مزید کہاکہ لکھنؤ کی عزاداری پوری دنیا پر اپنا خاص اثر رکھتی ہے اور برصغیر میں لکھنؤ کی طرز پر ہی عزاداری ہوتی ہے ۔عزاداری کو فروغ دینے اور شریعت کے مطابق اس کے خدوخال معین کرنے میں حضرت دلدار علی غفران مآبؒ کا اہم کردار رہاہے ۔ان سے پہلے عزاداری میں رسومات کا بول با لاتھا جس میں خلاف شریعت چیزوں کی آمیزش کردی گئی تھی،جن کی اصلاح کاکام آیت اللہ العظمیٰ سید دلدار علی غفران مآبؒ نے کیا ۔مولانانے کہاکہ آج ہندوستان کے جتنے بڑے علمی خانوادے ہیں وہ سب کے سب حضرت غفران مآبؒ کے شاگرد ہیں۔مولانانے کہاکہ نوابین اودھ نے اپنے لیے بڑی بڑی عمارتوں ،قلعوں اور مقبروں کا اہتمام نہیں کیا بلکہ امام باڑوں اورمساجد کی تعمیرا کرائی ۔آج دنیا کا سب سے بڑا امام باڑہ لکھنؤ میں ہے ۔یہ علماء کی تعلیم و ہدایت کا ہی نتیجہ تھا کہ وہ بادشاہ جو دنیاوی کاموں میں مصروف رہتے تھے انہیں دینی خدمات کی طرف متوجہ کیا ۔
مولانانے کہا ہر مذہب کی عبادت گاہ میں اسی مذہب اور عقیدے کے لوگ ملیں گے ۔بہت سے مندر ایسے ہیں جہاں اعلان ہوگیاہے کہ یہاں غیر ہندو داخل نہیں ہوسکتا۔مگر امام حسینؑ کی عزاداری اور امام باڑوں کی یہ خاصیت ہے کہ یہاں ہر مذہب و مسلک اور مختلف عقیدے اور نظریے کا آدمی مل جائیں گے۔جب دریا الگ الگ ہوتے ہیں توان کے نام الگ الگ ہوتے ہیں ،کہ یہ روای ہے ،یہ گنگاہے ،یہ جمنا ہے ،یہ جہلم ہے ۔مگر جب سارے دریا سمندر میں مل جاتے ہیں تو کوئی نہیں بتا سکتا کہ کونسے دریا کاپانی کہاں ہے ۔عزائے امام حسینؑ سمندر کی حیثیت رکھتی ہے جس میں داخل ہوکر الگ الگ مسلک و مذہب اور مختلف نظریات و عقاید کے افراد ایک معلوم ہوتے ہیں ۔مولانانے کہاکہ محرم تیور ہار نہیں ہے بلکہ غم کا مہینہ ہے ۔افسوس یہ ہے کہ اسے ’فیسٹویل رجسٹر ‘ میں لکھاگیاہے ۔محرم تیوہار اور فیسٹویل نہیں ہے بلکہ غم کا مہینہ اورظلم کے خلاف احتجاج کا نام ہے ۔
مولانانے آخر مجلس میں حضرت مسلم بن عقیل کی شہادت اور ان کی مظلومیت کا تذکرہ کیا جسے سن کر عزاداروں نے خوب گریہ کیا ۔مجلس میں کورونا پروٹوکول کا پورا خیال رکھا گیا اور امام باڑے کے گیٹ پر ماسک اور سنیٹائز ر کا اہتمام کیا گیا۔