۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
مولانا عابد رضا نوشاد

حوزہ/یہ وہ موقع ہے جب ہماری ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں اس الہی مکتب کو پیش کرنے میں، اس وقت ضرورت ہے اس بات کی کہ دین الہی اور مکتب اہل بیت(ع) و مکتب امام خمینیؒ کی طرف رہنمائی کی جائے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجت الاسلام مولانا عابد رضا نوشاد نے حوزہ نیوز ایجنسی سے بات کرتے ہوئے صوتی کلپ کے ذریعہ امام خمینیؒ کی برسی کے موقع پر اپنے تأثرات کا اظہار کیا اور بیان کیا کہ آج کے دور میں پوری دنیا کو امام خمینیؒ کے روشن کیے راستے پر چلنے کی ضرورت ہے اور استعماری طاقتون کے منہ پر زوردار طمانچہ رسید کیے بغیر انسانیت کو سکون ملنے والا نہیں ہے۔

مولانا نے کہا،امام روح اللہ الموسوی الخمینی رحمة اللہ علیہ عظیم الشان شخصیت اور ذو جہات کمالات کے مالک تھے، متأله فقیہ، متبحر فیلسوف، خدا رسیدہ عارف،بابصیرت سیاستمدار تھے جو کہ مظلومین عالم کے علمبردار بھی تھے اور استکبار وسامراج کے مخالف بھی، آج سے چالیس برس قبل امام خمینی رضوان اللہ علیہ نے کی قیادت میں شاه کی ظالمانہ اور اسلام و انسانیت مخالف شہنشاہیت کی بساط پلٹ دی گئی اور ایک بار پھر ظلم و ناانصافیوں پر عدل کو اور خون کو شمشیر بر فتح حاصل ہوئی اور اس آیت کریمہ کا خوبصورت مرقع پیش کیا جسمیں ارشاد ہے:جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا۔

مولانا نے کہا،صبر و استقامت شکر نعمت اخلاص و ایثار یہ وہ اوصاف ہیں جو ایرانی قوم کے اندر موجود تھے اور موجود ہیں انہی اوصاف کی بنیاد پر ایرانی عوام اسلامی انقلاب کو کامیاب کر سکی، ساتھ ہی ان کی خوش نصیبی تھی کہ انہیں عظیم قیادت اور رہبری نصیب ہوئی اور اب ان کے جانشین ولی فقیه حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای مدظلہ العالی جیسی شخصیت صاحب بصیرت و مدبر کی رہنمائی کا شرف حاصل ہے،خوش نصیب ہیں وہ اقوام جنہیں عظیم قیادت نصیب ہے، اس عظیم الشان انقلاب کی قدر جانیں جو صرف ایرانی قوم سے یا مذہب سے مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ دنیا کے تمام مظلوموں اور ستم کے ماروں کا انقلاب ہے یہ ہر سلیم الفطرت انسان کے دل کی دھڑکن ہے یہی وجہ ہے کہ اسکے اثرات پوری دنیا پر مرتب ہوئے ہیں جو حکومتی جو ممالک سپرپاور طاقتوں کے سامنے سرتسلیم خم کئے رہتے تھے زبان کھولنے کی ہمت نہیں جٹاپاتے تھے جو انسان ان انسانیت کے دشمنوں کے سامنے ہر طرح کا ظلم و ستم سہنے پر مجبور تھے وہ بھی اب ایران کے اسلامی انقلاب سے اور امام خمینیؒ جیسی عظیم روح سے جن کا نام ہی روح اللہ تھا کسب فیض کررہے ہیں اور اس سے درس حاصل کرتے ہیں اور سامراجیت کے مدمقابل سینہ تان کر کھڑے ہوئے نظر آتے ہیں جس کی ایک مثال آج  امریکہ میں نظر آرہی ہے امریکہ کے اس حال سے درس لینا چاہیے آج وہاں پر مظلوم اور مستحق لوگوں کی قوم کھڑی ہوچکی ہے اس سوپرپاور اور نام نہاد سپرپاور کے مقابلے میں اس لئے کہ سپرپاور اور حقیقی سپرپاور صرف اور صرف اللہ کی ذات ہے اور امام خمینیؒ یہ انقلاب اسی لئے برپا کیا تھا کہ بتا دیا جائے کہ سپرپاور کوئی اور ہے تم نہیں ہو سپرپاور صرف اللہ کی ذات ہے،یہ امریکہ میں جو ایک لہر دوڑ پڑی ہے انقلاب کی اس کی آواز صدیوں سے آرہی تھی اور اب وہ مقام ہے اور اب وہ مرحلہ ہے کہ جہاں پر امریکہ اپنے آپ کو چاروں طرف سے گھرا ہوا پاتا ہے۔
انہوں نے کہا، یہ امریکہ ہے جسے امام خمینی علیہ الرحمہ نے شیطان بزرگ کا نام دیا تھا اور آج پوری دنیا پر ثابت ہوگیا کہ صحیح نام دیا تھا جس وقت انہوں نے یہ کہا تھا شاید لوگ باور نہ کر پا رہے ہوں لیکن جیسے جیسے زمانہ گزرتا جارہا ہے لوگوں کو معلوم پڑتا جارہا ہے کہ شیطان بزرگ نے دنیا بھر میں تباہی مچا رکھی ہے جس ملک میں داخل ہوتا ہے وہاں تباہی مچ جاتی ہے،نہ جانے کتنی کوکھیں ویران اور کتنے بچوں کو یتیم کیا ہے امریکہ آج اپنے ہی کھودے ہوئے گڑھے میں گر چکا ہے۔

مزید انہوں نے کہا،امریکہ میں جو ایک شخص پر ظلم کیا گیا پولیس کے ذریعے اور اس کے جو آخری جملے تھے جب اس کے کی گردن پر گھٹنہ رکھا گیا وہ جو اسکے آخری جملے تھے وہ یہ تھے کہ میں سانس نہیں لے پا رہا ہوں اس کا یہ ایسا جملہ آج وہاں کے مظاہروں میں ٹرینڈ اور ایک علامتی نعرہ بن گیا ہے جو بتاتا ہے کہ امریکہ میں ہم سانس نہیں لے سکتے ہیں اس گھٹن کے ماحول میں استبدادی فضا میں استعماری ماحول میں سانس نہیں لے پا رہے ہیں ہمیں یہ پسند نہیں ہے گویا اگر ذرا سی رہنمائی کی جائے اور ان کے سامنے امام خمینیؒ کے مکتب کا تعارف کرایا جائے اور اس مکتب کو پیش کیا جائے یعنی الہی مکتب، الہی مکتب کو ان کے سامنے پیش کیا جائے یہ وہ موقع ہے جب ہماری ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں اس الہی مکتب کو پیش کرنے میں، اس وقت ضرورت ہے اس بات کی کہ دین الہی اور مکتب اہل بیت(ع) و مکتب امام خمینیؒ کی طرف رہنمائی کی جائے۔

مولانا نے بیان جاری رکھتے ہوئے کہا، امام خمینیؒ نے یہ انقلاب برپا کیا اور مادیت میں غرق دنیا کو معنویت کی راہ دکھائی جھوٹے خداؤں کا انکار کرکے سچے خدا کی طرف بلایا لوگوں کو مادیت سے نکالا اور روحانیت کی طرف لے گئے دنیا میں لوگوں کو آخرت کی طرف متوجہ کیا اور واضح کیا کہ پاکیزہ زندگی حاصل کرنی ہے تو ہم بتائیں گے کہ وہ پاکیزہ زندگی کیا ہے کیونکہ ہمارا تعلق اسلام سے ہے ہمارا تعلق مکتب اہل بیت(ع) سے ہے جو دنیا کا واحد پاکیزہ ترین مکتب ہے جو امام خمینیؒ کا مکتب ہے لہذا ضرورت ہے ہمیں مزید بیدار ہونے کی اور بیدار رہنے کی صبر و استقامت کے مظاہرے کی اس لیے کہ قوم و ملت کی بیداری کے بغیر اچھی سے اچھی قیادت کے باوجود نہ تو کوئی انقلاب کامیاب ہوسکتا ہے اور کامیاب ہونے کے بعد تادیر باقی رہ سکتا ہے فرزندان توحید کو چاہیے کہ وہ آیت استقامت پر عمل کرتے ہوئے عالمی سامراجیت اور استعمار کے سامنے ڈٹے رہیں جسمیں ارشاد ہوتا ہے:إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّـهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ؛بیشک جن لوگوں نے یہ کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور اسی پر جمے رہے ان پر ملائکہ یہ پیغام لے کر نازل ہوتے ہیں کہ ڈرو نہیں اور رنجیدہ بھی نہ ہو اور اس جنّت سے مسرور ہوجاؤ جس کا تم سے وعدہ کیا جارہا ہے۔
اس محقق و مفکر اور ہندوستان کے ممتاز افاضل میں سے ایک نے اپنے بیان کا آخری حصہ دعائیہ کلمات کے ساتھ تمام کیا اور کہا، جو سر اللہ کے سامنے جھکا ہو پھر وہ کسی کے سامنے خم نہیں ہوتا اس مقام پر علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے کہ: 

وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے؛ ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .