۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
مولانا سید عازم باقری جوراسی

حوزہ/شیعیت کو ایک نئی شناخت اور آبرو بخشی،ہندوستان میں بہت سے وہ علاقے جہاں لوگ بعض اوقات خود کو شیعہ بتانے سے کتراتے تھے کہ ہم شیعہ ہیں، انقلاب اسلامی کے بعد ان لوگوں میں اتنی جرأت پیدا ہوئی کہ انہوں نے باقاعدہ اسکا اعلان کیا اور خود کو فخریہ شیعہ کہنے لگے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،حجت الاسلام مولانا سید عازم باقری جوراسی نے حوزہ نیوز ایجنسی سے بات کرتے ہوئے امام خمینیؒ اور انقلاب اسلامی ایران کے اثرات کا جائزہ لیا اور کس طرح شیعیت کو آبرو ملی اس پر گفتگو فرمائی۔

انہوں نے کہا، امام خمینی علیہ الرحمہ کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے شیعیت کو ایک نئی شناخت اور آبرو بخشی،ہندوستان میں بہت سے وہ علاقے جہاں لوگ بعض اوقات خود کو شیعہ بتانے سے کتراتے تھے کہ ہم شیعہ ہیں، انقلاب اسلامی کے بعد ان لوگوں میں اتنی جرأت پیدا ہوئی کہ انہوں نے باقاعدہ اسکا اعلان کیا اور خود کو فخریہ شیعہ کہنے لگے۔

ہندوستان کے زمینی حالات کا جائزہ لیتے ہوئے مولانا نے کہا،ابھی حال ہی میں حجت الاسلام مولانا وصی حسن خان صاحب کے بڑے بھائی جناب عقیل صاحب بیان کررہے تھے کہ جہاں پر زمیندار گھرانے تھے وہاں پر تو لوگ فخر کے ساتھ اعلان کرتے تھے اور سب لوگ کہتے تھے کہ ہم شیعہ ہیں لیکن اترپردیش میں شاہ گنج کے اطراف بہت سی شیعوں کی بستیاں ایسی بھی تھیں جہاں مومنین کی تعداد بہت کم تھی جو ناامنی کی وجہ سے خود کو شیعہ بتانے سے گریز کرتے تھے،امام خمینیؒ کا کرشمہ اور آپ کے انقلاب کی دین یہ ہے کہ اس کے بعد سے لوگ فخریہ کہتے تھے کہ ہم شیعہ ہیں۔

مولانا موصوف نے پرانی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے کہا،امام خمینیؒ کے ملکوتی کردار کے نقوش مومنین کے دلوں اور ذہنوں پر اس قدر گہرے ہیں کہ مجھے یاد ہے جبکہ میرا بچپن تھا جب امام خمینیؒ کی رحلت واقع ہوئی،اس وقت میں تاجو پور اترپردیش جونپور میں تھا، اس وقت ہم تاجو پور میں تھے جوکہ جونپور میں ایک بستی ہے وہاں پر مولانا شہنشاہ حسین صاحب ہمارے ماموں ہوتے تھے اور مولانا شرافت صاحب جو اس وقت سحر ٹی وی میں ہیں ان کا وہ وطن ہے وہ بھی ہمارے ماموں ہوتے ہیں ہم ان کے یہاں اس وقت تھے، جب امام خمینیؒ کی  رحلت کی خبر گردش کرنے لگی تو لوگ اس طرح سے رو رہے تھے کہ جیسے اپنے گھر کا بہت ہی قریبی عزیز رخصت ہو گیا ہو پورا گھر رو رہا تھا وہ منظر مجھے یاد ہے بچپن تھا لیکن ابھی بھی وہ بچپن کی یاد  ذہن میں موجود ہیں کہ لوگ کیسے رو رہے تھے۔

اپنے بیان کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے حوزۂ علمیہ کے استاد نے کہا،ہمارے یہاں جوراس میں ٹی وی وغیرہ چلانے کی اجازت نہیں تھی لیکن مجھے یاد ہے کہ امام خمینیؒ کی رحلت کی جو ویڈیو بنی تھی اس ویڈیو کو دیکھنے کے لیے کیسٹ منگوائی گئی اور کرائے پر ٹیلیویژن منگواکر تشیع کے مناظر دیکھے گئے جسے لوگ دیکھ دیکھ کر زارو قطار رو رہے تھے اور ایک قیامت کا سماں تھا جیسے کہ اپنے گھر کا جنازہ اٹھا ہو اور اسکی تشیع جنازہ ہو، جو اس بات کو روشن کرنے کے لیے کافی ہے کہ ہندوستان کے گوشے گوشے میں جہاں انسانیت پسند انسان پائے جاتے ہیں انکے دلوں پر امام خمینیؒ کے نقوش کس قدر پختہ تھے۔

اپنی گفتگو کے آخری مرحلے میں وثیقہ عربی کالج کے استاد نے کہا،باہر پوری دنیا میں جو اثر ہے وہ اپنی جگہ ہے سبھی جانتے ہیں لیکن خود ہندوستان میں بستی بستی شہر شہر لوگوں نے آپ کا غم منایا تھا اور آج بھی جب ان کا نام آتا ہے تو پھر سے ذہنوں میں ان کی یاد تازہ ہو جاتی ہے ہمیں آج بھی یاد ہے بچپن میں ہم لوگ بھی اللہ اکبر خمینی رہبر کا نعرہ لگایا کرتے تھے،یقینا اللہ بہت بڑا ہے اور ہم لوگوں کی خوش قسمتی ہے کہ خداوند عالم نے ہمیں ہماری قوم کو امام خمینیؒ جیسا رہبر عطا کیا خداوند عالم ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے انکے درجات یقیناً عالی ہیں مزید متعالی فرمائے اور ان کے توسط سے جو انقلاب اسلامی آیا ہے اس انقلاب کو ان شاءاللہ ہمارے امام کے ظہور سے ملا دے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .