۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
علامہ منتظر مہدی رضوی

حوزہ/۳۱ سالوں کا فراق آنکھوں سے دیکھتے ہوئے گزر گیا مگر ذہن سے اوجھل نہ ہو سکا ساتھ ہی ہر گوشہ وکنار میں رہنے والے جو کہ امام خمینیؒ سے متعارف تھے ان کے دلوں پر وہ آج بھی چھائے ہوئے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،استاد حوزۂ علمیہ قم علامہ سید منتظر مہدی نے حوزہ نیوز ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے امام خمینیؒ کی ذاتی صفات و کردار اور انکے طرز زندگی پر روشنی ڈالی واضح رہے کہ علامہ نے امام کو نزدیک سے دیکھا بھی ہے اور انہیں شرف ملاقات بھی حاصل ہے جیسا کہ انہوں نے اپنے بیان میں اس بات کا ذکر بھی کیا ہے۔

علامہ نے اپنے بیان کا آغاز سورۂ نور کی آیت نمبر ۵۲ سے کیا جسمیں ارشاد ہے:وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّـهَ وَيَتَّقْهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ؛اور جو بھی اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا اور اس کے دل میں خوف خدا ہوگا اور وہ پرہیزگاری اختیار کرے گا تو وہی کامیاب کہا جائے گا۔

اس آیت کے ضمن میں انہوں نے کہا،مرد اخلاص، پیکر صدق و صفا مردم محکم و مستحکم حضرت آیت اللہ العظمی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کہ جن کی ذات والا صفات سے نہ تنہا میں بلکہ ساری دنیا متاثر ہے۳۱ سالوں کا فراق آنکھوں سے دیکھتے ہوئے گزر گیا مگر ذہن سے اوجھل نہ ہو سکا ساتھ ہی ہر گوشہ وکنار میں رہنے والے جو کہ امام خمینیؒ سے متعارف تھے ان کے دلوں پر وہ آج بھی چھائے ہوئے ہیں، میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ چار برس ایران آنے کے بعد ان کی حیات کا میں نے درک کیا ہے جس میں دو ایک مرتبہ شرف ملاقات بھی حاصل رہا،اس درمیان انکی شخصیت سے جو چیز دیکھنے کو ملی وہ انکا عزم محکم اور ارادۂ مستحکم تھا جس سے یہ بات حاصل ہوتی ہے کہ اگر انسان عزم محکم اور ارادۂ مستحکم پیدا کرلے تو جس طرح سے یہ کامیاب ہیں اسی طرح کامیاب ہوسکتا ہے انکی زندگی میں چار پانچ ایسے اصول تھے جس نے بہت متاثر کیا ایک تو یہ کہ اخلاص دوسرا ظلم کے مقابلے میں ایستادگی تیسرا یہ کہ عدل و انصاف پسندی چوتھا یہ کہ خوف خدا اور پانچواں اصول یہ کہ مستضعفین کی پاسبانی؛ یہ پانچ اصول تھے جن میں سب سے زیادہ کارگر جو چیز ہے اور جو ان پانچوں اصول کو باقی رکھنے والی بھی ہے وہ ہے ارادۂ مستحکم اور عزم محکم ان چیزوں نے حضرت آیت اللہ العظمی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے مشن کو کامیابی اور کامرانی تک پہنچایا۔

گفتگو کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا، خوف خدا اور اخلاص نے انہیں اس منزل تک پہنچایا یا کہ آج دنیا سے اکتیس سال ہوگئے چلے گئے مگر آج بھی ان کے تمام تر بیانات اور ان کے طرز عمل کی بات ہوتی ہے اور ان پر عمل ہوتا ہے، اس وقت بھی کہ جب ناامنی کا ماحول تھا اور جب کہ جب سکون کا دور تھا انکی زبان سے ظلم کے خلاف جو الفاظ نکلتے تھے اس کے اثرات مرتب ہوتے تھے اور اس زمانے سے لے کر آج تک ان الفاظ کے اثرات مرتب ہیں ہم ان سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں، اب بھی کہ جب وہ دنیا میں نہیں ہیں، آپ دیکھیئے اخلاص کا یہ عالم ہے کہ کوئی بھی عمل کرتے ہیں تو خدا کو مدنظر رکھ کر کے ہمیشہ لوگوں سے یہ کہا ہے کہ دنیا کی طرف توجہ نہ دیا جائے بس اللہ کی طرف توجہ رکھیں اللہ کی طرف متوجہ رہیں،اتنی بڑی حکومت کا قیام خود یہ ایک آئیڈیالوجی ہے کہ جس آئیڈیالوجی پر اس حکومت کو قائم کیا ہے لیکن خود اپنے اندر صدق و صفا پیدا کرنا خود اپنے اندر اسے جگہ دینا بس اسی کا کام ہے جو ہر کام میں بس اللہ کو مدّنظر رکھتا ہو اسی لیے شہید صدر(رح) نے انکے سلسلے سے کہا تھا:ذوبوا في الخميني كما هو ذاب في الاسلام،اسلام میں ایسا ڈھل گئے امام خمینیؒ کے جو واقعی اسلام سے آشنا تھے وہی امام خمینیؒ کو پہچان پائے۔

ایک دلچسپ واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے علامہ نے بیان فرمایا،حقیقت یہ ہے کہ کبھی بھی انہوں نے اپنی شخصیت کو سامنے نہیں رکھا یہ ایک یادگار گفتگو ہے کہ جسے تہران کے امام جمعہ حضرت آیت اللہ موسوی اردبیلی نے بیان بھی فرمایا تھا، کسی مسئلے کے تحت کے کہا گیا کہ لوگ ہماری حمایت نہیں کرتے ہیں اور قبول نہیں کرتے ہیں تو اس میں سے کوئی صاحب تحریک کرنے کی غرض سے کہنے لگے آقا آپ کو بھی قبول نہیں کرتے ہیں تو امام خمینیؒ نے کہا لوگ ٹھیک کرتے ہیں! کیا میں کوئی اصول الدین ہوں جو مجھے قبول کریں!! یعنی اشارہ اس طرف تھا کہ میں کوئی معصوم تھوڑی ہوں جو ہر انسان پر مجھے قبول کرنا واجب ہو۔

علامہ موصوف نے کہا،اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسوہ اور نمونہ اگر کوئی ہے تو وہ معصوم ہیں اور بحمداللہ خدا کا شکر ہے کہ ہمارے پاس چودہ معصومین(ع) موجود ہیں لیکن معصومین(ع)کی تعلیمات کو اپنے اندر سما دینے والے کا نام روح اللہ الموسوی الخمینی ہے کہ جس نے دنیا کے سامنے ایسا کریکٹر پیش کیا کہ میدان عمل میں یکتا ہیں اور میدان سیاست میں فرد واحد۔

استاد حوزۂ علمیہ نے اپنے بیان کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آج کے وہ علماء جو سیاست میں دخیل ہونا چاہتے ہیں وہ امام خمینیؒ کی سیرت کو اپنے سامنے رکھیں اور ادھر ادھر کی بات کرنے کے بجائے انکے اصولوں کو اپنائے تو یقیناً کامیابی قدم چومے گی کیونکہ سیاست کے معنیٰ ہی تدبیر کے ہیں اور تدبیر سے کام لینا ہی ہر عاقل کا شیوہ ہے، انہوں نے اپنے بیان کے آخر میں کہا کہ آج کے دور میں اسی مکتب فکر کی نمائندہ شخصیت ہیں حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای جو انکے راستے پر گامزن ہیں، وہی صداقت و اخلاص جو انمیں تھا انمیں بھی ہے جس پر کے سارے نظام کا دارومدار ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .