۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
اخلاق آہن

حوزہ؍جناب اخلاق آہن(پروفیسر آف انڈین یونیورسٹی) نے کہا: ہندوستانی زبان آموزوں کو ایران میں تعلیم کی ضرورت ہے اور اگر یہ تعاون بڑھے تو طلبہ ادب کی باریکیوں کو سمجھیں گے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق؍ہندوستان میں فارسی زبان کے پروفیسر نے صدا و سیما نیوز ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا: آج ہندوستان کے مختلف علاقوں میں فارسی زبان پڑھائی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا: ہندوستان کی ثقافت اور تہذیب میں فارسی زبان کے نمایاں کردار کو دیکھتے ہوئے ایران کے ثقافتی اراکین سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ فارسی زبان کے پھیلاؤ اور توسیع میں مزید تعاون کریں گے تاکہ وسائل کی کمی جواز نہ بنے۔

جناب اخلاق آہن نے مزید کہا: بلاشبہ فرہنگ ہاؤس اور فارسی پروفیسروں نے مدد اور تعاون کیا ہے لیکن یہ تعاون اور زیادہ ہونا چاہیے۔ مثال کے طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ ہندوستان فارسی زبان کے سب سے بڑے ذخائر میں سے ایک ہے لیکن پھر بھی اس پر توجہ کی ضرورت ہے۔

ہندوستان کی فارسی زبان کے پروفیسر نے اشارہ کیا: دوسری چیز جو بہت اہم ہے اور ہندوستان کے لوگ آج اس کا ادراک نہیں کر پا رہے ہیں وہ یہ ہے کہ فارسی زبان پچھلے ہزار سالوں سے ہندوستانی تہذیب کی علمی اور ادبی زبان رہی ہے۔

انہوں نے کہا: "ہم ہندوستانی ثقافت اور تہذیب کے کسی بھی حصے کو فارسی زبان کے بغیر نہیں سمجھ سکتے، مثال کے طور پر ہندو اور سکھ مذاہب کے زیادہ تر ماخذ فارسی زبان میں ہیں۔"

جناب آہن نے کہا: ’’بدقسمتی سے پچھلی دو صدیوں میں جو کچھ ہوا، جب انگریز ہندوستان میں آئے تو فارسی زبان کو حاشیئے پر کر دیا گیا۔

ہندوستانی زبان آموزوں کو ایران میں تعلیم کی ضرورت ہے، اخلاق آہن

انہوں نے وضاحت کی: اگر ہم ایران اور ہندوستان کی تاریخ کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو کافی ہے کہ ہندوستان میں ایک شہر ہے جسے آج پنجاب کہا جاتا ہے۔ اس شہر کا نام فارسی زبان سے لیا گیا ہے اور اس کا مطلب ایک ایسی جگہ ہے جہاں پانچ دریا ہوں۔

پروفیسر آہن نے مزید کہا: میں پہلے بھی بہت سی فارسی نظموں کے ساتھ ساتھ فارسی کتابوں اور مضامین کا اردو، ہندی اور انگلش میں ترجمہ کر چکا ہوں اور اس کورونا کے دور میں ایک منظوم کام کی صورت میں کچھ کتابوں کا ترجمہ کرنا شروع کیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا: میں نے حضرت محمد (ص) اور حضرت علی (ع) کی مدح میں موجود اشعار کا منظوم ترجمہ کیا ہے اور اسی طرح مولانا رومی، حافظ اور بیدل کے اشعار کی تدوین کرکے انہیں مختلف جگہوں پر شائع کیا ہے جسے مستقبل میں کتاب کی شکل دے کر شائع کیا جائے گا۔

ہندوستانی زبان آموزوں کو ایران میں تعلیم کی ضرورت ہے، اخلاق آہن

آخر میں اخلاق آہن نے مزید کہا: میں اہل علم کے خاندان سے ہوں، بدقسمتی سے میں ان کی میراث کو محفوظ نہیں کر سکا، لیکن حضرت سعدی فرماتے ہیں کہ: "همه قبیله من عالمان دین بودند، مرا معلم عشق تو شاعری آموخت"۔ اور اس طرح میں نے شاعری سیکھی اور شعر کہتا ہوں میرے خاندان میں ہمیشہ علی (ع) اور اہل بیت (ع) کا ذکر رہا ہے اور یہ میری ایمانی و ثقافتی میراث ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .