۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
شبہات کے جوابات

حوزہ؍"ہم اہل بیت کے علاوہ کسی اور طریقہ سے معرفت (علم و دانش) کو سیکھنا، کسب کرنا، ہمارا انکار کرنے کی مساوی ہے۔"( صحیفہ مہدی ص، 334، ح 10)۔ سوال یہ ہے کہ اس حدیث کے مطابق کیا فلسفہ و عرفان جیسے علوم کو حاصل کرنا اور ان میں مشغول ہونا، اہل بیت(ع) کا انکار کرنے کے مساوی ہے؟ کیونکہ یہ علوم باہر سے اسلام میں داخل ہوئے ہیں اور ان کا اہل بیت(ع) کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے؟

حوزہ نیوز ایجنسی؍

سوال

السلام علیکم۔" ہم اہل بیت کے علاوہ کسی اور طریقہ سے معرفت (علم و دانش) کو سیکھنا، کسب کرنا، ہمارا انکار کرنے کی مساوی ہے۔"( صحیفہ مہدی ص، 334، ح 10)۔ سوال یہ ہے کہ اس حدیث کے مطابق کیا فلسفہ و عرفان جیسے علوم کو حاصل کرنا اور ان میں مشغول ہونا، اہل بیت(ع) کا انکار کرنے کے مساوی ہے؟ کیونکہ یہ علوم باہر سے اسلام میں داخل ہوئے ہیں اور ان کا اہل بیت(ع) کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے؟

جواب

سوال پوچھے گئے موضوع کو بہتر صورت میں واضح کرنے، یعنی مکتب اہل بیت(ع) کے علاوہ علم و دانش حاصل کرنے اور یہ ثابت کرنے کے لئے کہ کیا بنیادی طور پر فلسفہ و عرفان، دینی علوم کے دائرے سے خارج ہیں؟ کے بارے میں چند نکات کے بارے میں جانچ پڑتال کرنے کی ضرورت ہے:
1۔ جو حدیث اس متن سے مشہور ہے کہ: " طلب المعارف من غیر طریقنا مساوق لا نکارنا" اس کی سند قابل اعتبار نہیں ہے اور معتبر دستیاب احادیث کے منابع میں نہیں ہے۔
2۔ البتہ ایسی روایتیں پائی جاتی ہیں جو اہل بیت(ع) کو منفرد علمی مرجع جانتی ہیں: «قَالَ سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ (ع) يَقُولُ وَ عِنْدَهُ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ يُقَالُ لَهُ عُثْمَانُ الْأَعْمَى وَ هُوَ يَقُولُ إِنَّ الْحَسَنَ الْبَصْرِيَّ يَزْعُمُ أَنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ الْعِلْمَ يُؤْذِي رِيحُ بُطُونِهِمْ أَهْلَ النَّارِ فَقَالَ أَبُو جَعْفَرٍ (ع) فَهَلَكَ إِذَنْ مُؤْمِنُ آلِ فِرْعَوْنَ مَا زَالَ الْعِلْمُ مَكْتُوماً مُنْذُ بَعَثَ اللَّهُ نُوحاً (ع) فَلْيَذْهَبِ الْحَسَنُ يَمِيناً وَ شِمَالًا فَوَ اللَّهِ مَا يُوجَدُ الْعِلْمُ إِلَّا هَاهُنَا»؛[1] " راوی کہتا ہے امام باقر (ع) فرماتے تھے بصرہ کا رہنے والا عثمان اعمی حسن بصرہ کے قول سےنقل کرتا تھا کہ حسن بصری خیال کرتا تھا کہ جو لوگ علم و دانش کو جھٹلاتے ہیں (اپنے تک محدود رکھتے ہیں) ان کے شکم کی بدبو جہنمیوں کو تکلیف پہنچاتی ہے۔ امام باقر(ع) نے فرمایا: اگر ایسا ہوتو مومن آل فرعون ہلاک ہوچکا ہونا چاہئےتھا، کیونکہ وہ اپنے علم کو جھٹلاتا تھا، یہاں تک کہ خداوند متعال نے نوح (ع) کو مبعوث کیا۔ خدا کی قسم حسن بصری جس دروازہ پر بھی دستک دے علم کو نہیں پائے گا، مگر ہم سے۔
3۔ اس کے مقابلے میں ایسی روایتیں بھی موجود ہیں جو مومنین اور مسلمانوں کو علم و دانش اور فلسفہ کو حاصل کرنے کی خاص طور پر اور مطلق علم و دانش کو عام طور پر حاصل کرنے کی ہمت افزائی اور ترغیب کرتی ہیں، مثال کے طور پر:
3۔1: " وَ قَالَ (ع)‏ الْحِكْمَةُ ضَالَّةُ الْمُؤْمِنِ فَخُذِ الْحِكْمَةَ وَ لَوْ مِنْ أَهْلِ النِّفَاق"؛‏[2] امام علی (ع) نے فرمایا ہے: حکمت (فلسفہ) مومن کی گم شدہ چیز ہے حکمت کو سیکھ لو اگر چہ منافق سے بھی سیکھنا پڑے۔"
3۔2: «خُذِ الْحِكْمَةَ مِمَّنْ أَتَاكَ بِهَا وَ انْظُرْ إِلَى مَا قَالَ وَ لَا تَنْظُرْ إِلَى مَنْ قَالَ»؛[3]" فلسفہ(حکمت) کو جس سے بھی ممکن ہو سیکھ لو، کلام کو دیکھونہ صاحب کلام کو۔"
3۔3: «خذ الحكمة أنّى كانت فإنّ الحكمة ضالّة كلّ مؤمن»؛‏[4]" حکمت(فلسفہ) کو سیکھ لو جہاں پر بھی ہو، کیونکہ حکمت مومن کی گم شدہ چیز ہے۔"
3۔4: «ضَالَّةُ الْعَاقِلِ الْحِكْمَةُ فَهُوَ أَحَقُّ بِهَا حَيْثُ كَانَت»؛‏[5] حکمت عاقل کی گم شدہ چیز ہے، پس وہ اسے حاصل کرنے کے لئے مستحق تر ہے، جہاں کہیں بھی ہو۔
3۔ 5: «قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص‏ اطْلُبُوا الْعِلْمَ‏ وَ لَوْ بِالصِّينِ فَإِنَّ طَلَبَ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِم‏»؛[6] علم و دانش کو حاصل کرنے کی جستجو کرو، اگر چہ چین ( دنیا کے دور ترین نقطہ) میں ہو، کیونکہ علم و دانش حاصل کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے،"
یہ روایتیں اور اس قسم کی دوسری روایتیں واضح طور پر بیان کرتی ہیں کہ انسان اپنی عقل کی طاقت سے استفادہ کرکے حکمت و دانش کو ہر اس شخص سے سیکھ لے جو حکیمانہ کلام کرتا ہو۔
4۔ مذکورہ مطالب کے پیش نظر، مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ: ان احادیث کے درمیان جمع (جواحادیث یہ کہتی ہیں کہ مرجع علمی ائمہ اطہار (ع) ہونے چاہئے اور وہ روایات جو یہ کہتی ہیں کہ علم ہر شخص سے سیکھا جاسکتا ہے) یہ ہے کہ معصوم امام تک رسائی ہونے کی صورت میں اور ائمہ اطہار (ع) کی تعلیمات کے خزائن و منابع کے اختیار میں ہونے کی صورت میں دوسروں کے پیچھے جانا انصاف کا تقاضا نہیں ہے۔ بہ الفاظ دیگر پہلی قسم کی روایتوں کا مراد، کہ کہتی ہیں علم ائمہ اطہار(ع) کے پاس ہے، یہ ہے کہ دین کے بارے میں علوم و معارف کا مکتب ائمہ اطہار(ع) میں جستجو کرنا چاہئے، نہ حسن بصری وغیرہ جیسوں کے مکاتب میں اور ان کو ائمہ اطہار کے ہم پلہ قرار نہیں دینا چاہئے، اس بنا پر ان روایتوں کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ معاشرہ کے افراد کی رشد و بالیدگی کو بڑھانے کے لئے عرفان اور دوسرے علوم جیسے علم و دانش کو حاصل کرنے کے سلسلہ میں علماء اور دانشوروں سے استفادہ کرنا ممنوع ہے۔
یہ نکتہ قابل توجہ ہے، کہ اس زمانہ میں جب علم و دانش چین میں پایا جاتا تھا، رسول خدا (ص) طلب علم کے لئے چین جانے کی سفارش فرماتے ہیں، جبکہ رسول خدا (ص) خود منبع علم و دانش تھےاورعلم الہی کے سر چشمہ تھے۔
5۔ یہ دعوی بھی قابل قبول نہیں ہے کہ فلسفہ و عرفان جیسے علوم کا اہل بیت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بلکہ اس کے برعکس اگر کوئی اہل بیت (ع) کی تعلیمات میں تھوڑا سا غور کرے، اسے معلوم ہوگا کہ ائمہ اطہار(ع) فلسفہ وعرفان کے منبع تھے، اوران کی تعلیمات، فلسفی اورعرفانی موضوعات سے سرشار ہیں۔

بشکریہ: اسلام کوئسٹ


[1]. کلینی، محمد بن یعقوب، كافي، محقق، مصحح، غفاری، علی اکبر، آخوندی، محمد، ج ‏1، ص 51، دار الكتب الإسلامية، تهران، طبع چهارم، 1407ق.

[2]. شريف الرضى، محمد بن حسين، نهج البلاغة، صبحي صالح، ص481، هجرت، قم، طبع اول، 1414 ق.

[3]. تمیمی آمدی، عبد الواحد بن محمد، تصنیف غرر الحکم و درر الکلم، محقق و مصحح، درایتی، مصطفی، ص ۵۸، دفتر تبلیغات اسلامی، قم، طبع اول، 1366ش.

[4]. ایضاً.

[5]. ایضاً، ص 59 .

[6] طبرسى، على بن حسن‏، مشكاة الأنوار في غرر الأخبار، ص 135، المكتبة الحيدرية، نجف، طبع دوم، 1385 ق، 1965 م، 1344 ش.‏

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .