۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
شبہات

حوزہ؍اولیائے الہی کی زندگی میں رنج و درد کے فلسفہ کے بارے میں ایک اور نکتہ قابل توجہ ہے کہ وہ دوسروں کے لئے نمونہ عمل ہیں اوران کا نمونہ عمل ہونا اسی صورت میں مکمل اور متحقق ہوسکتا ہے جب وہ ہرجہت سے سرمشق ہوں، اگر وہ درد و رنج سے دوچار نہ ہوں تو وہ ان افراد کے لئے کیسے نمونہ عمل ہوسکتے ہیں، جو رنج و مصیبت میں مبتلا ہوں۔

حوزہ نیوز ایجنسی؍

سوال

خداوند متعال نے اس دنیا کو کیوں پیدا کیا ہے؟ معمولاً اس کا جواب یہ ہے کہ مخلوقات عالم، خاص کر انسان خدا کو پہچان لیں اور اس کی عبادت کریں۔ میں یہ سوچتا ہوں کہ خداوند متعال نے عالم ہستی کو خلق کیا ہے تاکہ ہم محمد (ص) آور آپ (ص) کے اہل بیت (ع) کو پہچان لیں۔ اگر دوسرا نظریہ صحیح ہے تو خداوند متعال نے ان کے حق میں کیوں ایسے کام انجام دئے ہیں جو تکلیف دہ ہیں؟ اور اگر پہلا نظریہ صحیح ہے تو کیوں انھیں اذیت و آزار سے دوچار کیا ہے؟ ایک طرف ہم کہتے ہیں کہ آنحضرت (ص) اور آپ (ص) کا خاندان خدا کے محبوب ترین بندے ہیں اور دوسری طرف خداوند متعال نے ان کے حق میں سخت ترین کام انجام دئے ہیں، ایسا کیوں ہے؟ اس نے کیوں ہم خاکی مجرمین کو پیدا کیا اور راہ راست پر ہدایت کے لئے اپنے انوار، یعنی آنحضرت (ص) اور آپ (ص) کے اہل بیت(ع) کو بدترین حالت میں قرار دیا؟ یہ مطلب گلاب کو کوئلے سے دھونے کے مترادف ہے۔ خداوند متعال نے کیوں اس دنیا میں درد و رنج کی راہ کا انتخاب کیا ہے؟ معلوم ہوتا ہے خداوند متعال درد و رنج اور برائی کو دوست رکھتا ہے اور اس کی سنت اسی پر استوار ہے، کیا خداوند متعال کا، اپنے محبوب کے ساتھ برتاؤ کرنے کا یہی مناسب طریقہ ہے؟ واقعاً خدا کیا چاہتا ہے؟ میری زندگی اس وقت سخت بحرانی حالت سے گزر رہی ہے، شائد اس لئے کہ میں چاہتاہوں کہ خدا کی نظر میں نیک بن جاؤں، اسی لئے زندگی میں ان سب مشکلات سے دوچار ہوں۔ علماء کہتے ہیں کہ اگر اپنی زندگی میں برائیوں کو چھوڑ دوگے اور تقوی اور پرہیزگاری سے زندگی گزاروگے تو خدا کی طرف سے آزمائشوں اور امتحانات سے دوچار ہوجاؤ گے اورسختیاں دیکھو گے۔ اگر زندگی راحت اور گناہ سے آلودہ ہو، تو علماء کہتے ہیں کہ اس دنیا میں عذاب سے دوچار ہوجاؤ گے۔ پس اس میں کیا فرق ہے کہ دونوں صورتوں میں سختیاں ہی سختیاں ہیں۔ کیا کوئی ایسا طریقہ موجود ہے کہ ہم خداوند متعال سے معاملہ انجام دیں اور وہ مجھے یہ فرصت دیدے کہ میں ایک ایسی زندگی کا انتخاب کروں( اچھی یا بری) جسے میں خود چاہتا ہوں؟ مجھ میں یہ طاقت نہیں ہے اور تصور نہیں کرسکتا ہوں کہ معصومین (ع) کی جیسی طاقت اور کردار کا مالک بن جاؤں اور حتی کہ ان کی خاک پا کے برابر بھی ہوجاؤں۔ ۔ ۔

مختصر جواب

خلقت کا مقصد، مخلوقات کو کرامت و بخشش عطا کرنا ہے۔ یہ مقصد شرور و بلاؤں کے ساتھ منافات نہیں رکھتا ہے، کیونکہ اولاً: جس عالم میں ہم قرار پائے ہیں، وہ عالم مادہ ہے اور عالم مادہ کی خصوصیات میں سے ایک، اس میں تضاد اور نا برابریوں کا موجود ہونا ہے کہ انھیں شرور کی تعبیر سے یاد کیا جاتا ہے۔ ثانیاً: یہی چیزیں جو شرور کے نام سے مشہور ہیں، مقصود بالذات اور ان کے خلق کرنے کا اصلی مقصد، ان کی نیکی اور بھلائی کا پہلو تھا جو ان کی غالب طبیعت ہے نہ ان کا شر کا پہلو۔ ثالثاً ان ہی شرور کے بھی بہت سے فائدے ہیں کہ من جملہ:
1۔ عالم ہستی کی زیبائیوں کو دکھلانا، کیونکہ برائی زیبائی کا مظہر ہوتی ہے۔ جب تک نہ زیبائی کے سامنے برائی قرار پائے، زیبائی اور برائی کے درمیان تشخیص نہیں دیا جاسکتا ہے اور زیبائی کو برائی سے جدا نہیں کیا جاسکتا ہے۔
2۔ بلا میں ترتیبی اثر ہوتا ہے اور فرد یا معاشرہ کی تربیت کا سبب بن سکتی ہے، یعنی بلا اور نعمت ایک نسبتی امر ہیں اور اس کا انحصار انسان کے مسائل سے مواجہ ہونے کی نوعیت پرہے۔ کہ ایک فرد کسی چیز کا اچھا استفادہ کرسکتا ہے اور وہ چیز اس کے لئے نعمت ہوسکتی ہے جبکہ دوسرا فرد اسی چیز کا غلط استفادہ کرسکتا ہے اور وہ چیز اس کے لئے بلا اور مصیبت ہوسکتی ہے۔
خداوند متعل نے اپنے اولیاء کو بلاؤں میں قرار دیا ہے، کیونکہ بلاؤں سے مقابلہ کرکے ہی انسان رشد و بالیدگی اور اخلاقی کمال تک پہنچ سکتا ہے اور نتیجہ کے طور پر خداوند متعال اسے بہت سے اخروی ثواب و پاداش عطا کرتا ہے۔

تفصیلی جواب

دنیا اور انسان کو خلق کرنے کا ایک فائدہ ہے، جو خود مخلوقات کو پہنچتا ہے[1] اور تمام مخلوقات و حتی کہ جمادات کے بارے میں بھی خداوند متعال کا لطف و کرم، ان کی خلقت کا سبب ہے اور امام صادق (ع) کی فرمائش کے مطابق، کائینات کے پیدا ہونے کی وجہ خداوند متعال کی کرامت کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔[2] البتہ خلقت کے اس مقصد کا درد و رنج کی موجودگی سے کوئی منافات نہیں ہے، کیونکہ اولاً: دنیا میں شرور مادی طبیعت کا لازمہ ہیں، مادہ کی خصوصیات میں سے ایک، تضاد و تزاہم کا موجود ہونا ہے، پس ان شرور کو دور کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے، مگر یہ کہ اس دنیا کو پیدا کرنے سے صرف نظر کیا جائے، اس صورت میں بھی دنیا کی مخلوقات، جو اغلب شرور پر ہیں، بھی صرف نظرہوتیں اور یہ خداوند متعال کی حکمت کے ساتھ سازار نہیں ہے۔[3]
ثانیاً: انہی شرور میں بھی ابتدائی قصد، ان کی خیر کا پہلو ہے نہ ان کے شر ہونے کا، مثال کے طور پر سورج، اس کا ابتدائی قصد کرنیں اور نور افشانی ہے، جو خیر ہے، لیکن اگر اسی سورج کی گرمی میں انسان ننگے سرزیادہ دیر تک کھڑا رہے تو وہ سر درد سے مبتلا ہوگا، اور یہ شر ہے اور مثال کے طور پر آگ، اس کا ابتدائی قصد گرمی دینا اور انسان کو سردی سے نجات دلانا ہے اور یہ خیر ہے، لیکن اسی آگ میں اگر ایک عالم و متقی انسان بھی گر جائے تو جل جائے گا کہ یہ اس کا شر ہے۔ اس لحاظ سے جو بھی ابتدائی قصد ہے وہ خیر و نیکی کا پہلو ہے جو ثانوی اور شر کے پہلو پر غلبہ رکھتا ہے۔[4]
ثالثاً: جس چیز کو انسان شر تصوّرکرتا ہے اور اسے شر کی نگاہ سےدیکھتا ہے، اس کے بھی بہت سے فوائد و آثار ہیں:

  1. زشتی زیبائی کا مظہر ہے، یعنی اگر دنیا میں زشتی نہ ہوتی تو زیبائی بھی معلوم نہیں ہوتی، اگر سب لوگ خوبصورت ہوتے تو کوئی خوبصورت نظر نہیں آتا، اسی طرح اگر سب لوگ بدصورت اور زشت ہوتے تو کوئی بد صورت دکھائی نہیں دیتا۔ مثال کے طور پر اگر معاویہ نہ ہوتا تو علی بن ابیطالب (ع) کو اس شکوہ و حُسن کے باوجود کوئی نہیں پہچانتا۔

یہ جو لوگ زیبائیوں کی طرف کھینچے جاتے ہیں، ان کی طرف جذب ہوتے ہیں اور زیبائی کی طرف حرکت اور کشش پیدا ہوتی ہے، یہ سب اس لئے ہے کہ وہ زشتیوں کو دیکھتے ہیں اور ان سے منہ موڑتے ہیں، حقیقت میں، خوبصورتوں کا جاذبہ، بد صورتوں کے دافعہ سے طاقت حاصل کرتا ہے۔ اس لحاظ سے شر کے فوائد میں سے ایک یہ بھی ہے کہ خیر کی طرف انسان کی راہنمائی ہوتی ہے۔[5]

  1. مصائب اور مشکلات، خوشبختیوں کی طرف ایک راہ، زیبائیوں اور ان کے خالق کے وجود کا مقدمہ ہیں۔ گرفتاریوں اور مصائب کے اندر نیک بختیاں اورسعادتیں پوشیدہ ہیں اور اسی طرح کبھی سعادتوں، کے اندر بدبختیاں مضمر ہوتی ہیں اور یہ عالم مادہ کا فارمولا ہے ۔ قرآن مجید ارشاد فرماتا ہے:" خدا رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے۔"[6] ایک مشہور ضرب المثل ہے کہ کہتے ہیں : سیاہ رات کا خاتمہ سفیدی ہے، اور یہ سعادت تک پہنچنے کے لئے رنج و مصیبت کے لازم و ملزوم ہونے کو بیان کرتا ہے، گویا سفیدی، سیاہی سے جنم لیتی ہے اسی طرح سفیدیاں بھی گمراہی کے حالات میں، سیاہی کو جنم دیتی ہیں ۔ [7]

جرمنی کا مشہور فلاسفر ہیگل کہتا ہے:" نزاع اور شرامور منفی، خیال پر مبنی نہیں ہیں بلکہ مکمل طور پر حقیقی ہیں اور حکمت کی نظر میں خیر و کمال کی سیڑھیاں ہیں، جدوجہد ترقی کا قانون ہے، دنیا کی افراتفری اور شورشوں میں صفات و فطری خوبیاں تکمیل و تدوین پاتی ہیں اور انسان صرف رنج، مسئولیت اور اضطراب کی راہ سے کمال تک پہنچتا ہے، رنج بی ایک معقول امر ہے اور حیات کی علامت اصلاح کا محرّک ہے"۔[8]
حضرت علی علیہ السلام، بصرہ کے گورنر، عثمان بن حنیف کے نام اپنے خط میں لکھتے ہیں:" ناز و نعم میں زندگی گزارنا اور سختیوں سے دوری اختیار کرنا، ضعف و ناتوانی کا سبب بن جاتا ہے اور اس کے برعکس سخت اور نا مناسب حالات میں زندگی گزارناانسان کو طاقتور اور چابک بن ادیتا ہے اور اس کی جوہر ہستی کو صیقل دیتا ہے اور توانا بنا دیتا ہے"۔[9]
شرور اور کمیابیوں کا وجود، مخلوقات کے وجود کو تکمیل کرنے اور انھیں صیقل کی طرف حرکت اور سوق دینے میں مفید اور موثر اور قطعی شرط ہے۔ اگررقابت اور عداوتیں نہ ہوں تو تلاش و کوشش اور مقابلہ بھی نہیں ہے، اگر جنگ اور خونریزی نہ ہو تو ترقی اور تمدن بھی نہیں ہے، پس، چونکہ عالم فطرت، عالم تدرج، کمال و حرکت، نقض سے کمال تک اور قوہ سے فعل تک پہنچتا ہے، اس لئے تزاحم، تضاد، بطلان اور انہدام کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی ہیں۔ بلکہ جن چیزوں کو شرور برائیاں کہا جاتا ہے ان کے فوائد کے پیش نظر جزئی اور خاص چیز کے لحاظ سے بظاہر شر ہیں، لیکن وسیع پیمانہ پر موازنہ کرنے سے خیر و خوبی ہیں نہ شر و برائی۔[10]
3۔ بلائیں، تربیتی اثر رکھتی ہیں اور تربیت کرنے والا، معاشرہ کو بیدار کرنے والا ہوتا ہے۔ سختیاں، سوئے ہوئے انسانوں کو بیدار اور ہوشیار کرنے والی اور عزم وارادوں کو متحرک کرنے والی ہوتی ہیں۔ شدائد، کی مثال لوہے اور فولاد کو صیقل دینے کے مانند ہیں، جس قدر انسان کی روح سے لمس کریں، انسان کو مصمم تر اور فعال تر اور تیزترکرتی ہیں، کیونکہ حیات کی خصوصیت یہ ہے کہ سختیوں کے مقابلے میں مقابلہ کرتی ہے اور اس کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے آمادہ ہوتی ہے، سختی میں کیمیا کے مانند انقلابی خاصیت ہے اور انسان کے جسم و روح کو بدل کے رکھ دیتی ہے۔
حیات کی اکسیر دو چیزیں ہیں: عشق اور بلا، یہ دو چیزیں کمال کر ڈالتی ہیں، افسردہ اور خاموش مادہ کو تابناک اور درخشاں گوہر میں تبدیل کرتی ہیں۔سعدی نے کیا خوب کہا ہے:
ہمہ عمر تلخی کشیدہ است سعدی کہ نامش بر آمد بہ شرین زبانی[11]
( سعدی نے پوری عمر تلخیاں برداشت کی ہیں تاکہ اس کا نام شیرین زبانی میں مشہور ہو جائے)
4۔ بلا اور نعمت دونوں نسبتی ہیں اور مصائب اس وقت نعمت میں تبدیلی ہوتی ہیں جب انسان ان سے صحیح استفادہ کرے اور صبر و شکیبائی اور استقامت سے، مصائب کی پیدا کی گئی دشواریوں سے مقابلہ کرکے اپنی روح کو کمال تک پہنچائے، لیکن اگر انسان سختیوں کے مقابلے میں ہتھیار ڈال دے، فرار کرے اور نالہ وزاری کرے تو اس صورت میں بلا اس کے لئے حقیقی معنوں میں بلا بن جاتی ہے۔
دنیا کی نعمتیں بھی مصائب کے مانند ممکن ہے فلاح و بہود اور سعادت کا سبب ہوں اور ممکن ہے بدبختی اور بیچارگی کا سبب بنیں۔ نہ فقر و بلا، مطلق بدبختی ہے اور نہ ثروت و فلاح مطلق خوشبختی ہے، بلکہ ممکن ہے فقر و بلا جو انسانوں کی تربیت و تکمیل کا سبب بنیں، نعمت میں تبدیل ہو جائیں اور ممکن ہے جو دولت اور نعمتیں بدبختی و بیچارگی کا سبب بنی ہوں، بلا و بد بختیوں میں تبدیل ہوں گیں۔ اس لحاظ سے نعمت و بلائیں، انسان کے ان کے مقابلہ میں رد عمل کی نوعیت پر منحصر ہیں، لہذا ممکن ہے ایک ہی چیز دو افراد کے بارے میں مختلف حالت رکھتی ہو اور ایک فرد کے لئے نعمت ہو اور دوسرے فرد کے لئے مصیبت و بلا ہو، اس لئے ہم کہتے ہیں کہ نعمت و بلا نسبتی امور ہیں۔[12]
ائمہ و اولیائے الہی کی زندگی میں مصائب و بلا کی موجود گی کا فلسفہ
1۔ خداوند متعال نے انسانوں کی تربیت و پرورش کے لئے تشریعی و تکوینی نام کے دو پروگرام پیش کئے ہیں اور ہر پروگرام میں مصائب اور سختیوں کو رکھا ہے اور ہر تشریعی پروگرام میں عبادتوں کو واجب قرار دیا ہے اور تکوینی پروگراموں میں مصائب کو ان کی راہ میں قرار دیا ہے۔ روزہ، حج، انفاق اور نماز ایسے شداید ہیں جو تکلیف شرعی کے عنوان سے ایجاد ہوگئے ہیں اور ان کے انجام میں صبر و استقامت ،روح کا کمال اور بلند انسانی استعدادوں کی پرورش کا سبب بن جاتے ہیں، بھوک، خوف، مالی اور جانی نقصانات، ایسے شداید ہیں جو تکوین میں پیدا ہوئے ہیں اور فطری طور پر انسان کو اپنے لپیٹ میں لیتے ہیں۔ نتیجہ کے طور پر انبیاء و اولیاء بھی دوسرے انسانوں کے مانند چونکہ اس مادی دنیا میں زندگے گزار تے ہیں، اس لـئے اس مادی نظام کے قوانین سے خارج نہیں ہوسکتے ہیں اور درد و رنج کے بغیر زندگی نہیں گزار سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر درد و رنج کا فلسفہ روح کے کمال تک پہنچنا اور پرورش ہے، توانبیاء اور اولیاء کو روحی کمال کے بلند ترین مقا مات پر ہونا چاہئیے، اس لحاظ سے جب خداوند متعال اپنے بندوں میں سے کسی کے بارے میں مخصوص مہربانی کرتا ہے، تو اسے سختیوں سے دوچار کرتا ہے اور مشہور جملہ " البلاء للولاء" اسی اصول کو بیان کرتا ہے۔[13] امام باقر(ع) سےنقل کی گئی ایک حدیث میں آیا ہے کہ: جب خداوند متعال اپنے کسی بندہ پر مہربانی کرتا ہے، تو اس کے لئے بلائیں ھدیہ کرتا ہے، اسی طرح جس طرح مرد سفر میں اپنے خاندان کے لئے کوئی تحفہ بھیجتا ہے۔"[14]امام صادق (ع) فرماتے ہیں: جب خدا اپنے کسی بندہ کو دوست رکھتا ہے تو اسے شدائد و مشکلات کے سمندر میں غرق کر دیتا ہے۔"[15]
سعد بن طریف کہتے ہیں: میں ابو جعفر امام باقر (ع) کی خدمت میں تھا کہ جمیل ارزق داخل ہوئے اور اپنی مشکلات اور شیعوں کے بہت سے مصائب کے بارے میں شکایت کی اور ان کی علت پوچھی کہ خاندان پیغمبر (ص) کے دوستدار کیوں اس قدر گونا گوں بلاؤں اور مشکلات میں زندگی گزاریں؟ امام صادق (ع) نے امام سجاد (ع) سے نقل کرکے فرمایا: ایک گروہ ان ہی سوالات کو لے کر امام حسین (ع) اور عبداللہ بن عباس کی خدمت میں پہنچے اور شکوہ و شکایت کے لئے لب گشائی کی اور اس کو حل کرنے کے طریقہ کا مطالبہ کیا کہ امام حسین (ع) نے فرمایا: خدا کی قسم، بلا و فقر اور تنگ دستی اور قتل تیز رفتار اونٹوں سے زیادہ تیز رفتار اور سیلاب کے پانی کے جھیل کے پانی کی بہ نسبت، تیز تر ہمارے دوستوں کی طرف دوڑ تے ہیں۔ ۔ ۔ اور اگر آپ لوگ ایسا نہیں تھے ہمیں معلوم ہوتا کہ آپ ہم سے نہیں ہیں۔"[16]
امام صادق علیہ السلم فرماتے ہیں:" انسانوں میں سب سے زیادہ بلائیں پہلے انبیاء، پھر ان کے جانشینوں اور پھر ان کے پیروں کی طرف متوجہ ہوتی ہیں۔"[17]
بلا، سمندر کی لہروں کے مانند ہیں جس طرح انسان تیرنا ، سمندر کی لہروں سے ٹکرا کر سیکھتا ہے، اسی طرح انسان کی روح کے لئے پرورشش کی بہترین روش بلاؤں سے مقابلہ کرنا ہے، اس لحاظ سے خداوند متعال چونکہ دوست رکھتا ہے کہ کہ مومن بندے مکمل رشد و تربیت حاصل کریں، اس لئے ان پر زیادہ بلائیں نازل کرتا ہے تاکہ ان بلاؤں سے مقابلہ کرنے کے نتیجہ میں رشد و بالیدگی حاصل کریں اور کمال تک پہنچیں۔
2۔ شدت بلا اور کثرت ثواب کے درمیانی چولی دامن کا ساتھ ہے، اور اس سلسلہ میں امیرالمومنین(ع) نے فرمایا ہے:" بڑی بلاؤں کے ساتھ اجر عظیم ہے پس اگر خداوند سبحان کسی قوم کو دوست رکھتا ہو تو انھیں ازمائش و بلا سے دوچار کرتا ہے"۔[18]
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:" ظالم انسان کے لئے، بلا وسیلہ ادب، مومن کے لئے وسیلہ امتحان، انبیاء کے لئے درجات کی بلندی کا سبب اور اولیاء کے لئے بلا کرامت کا سبب ہے"۔[19]
ایک روایت میں سلیمان بن خالد نے امام صادق (ع) سے روایت نقل کی ہے کہ: مومن بندہ کے لئے خدا کے ہاں ایک مقام و منزلت ہے، اور یہ مقام و منزلت مال یا جسمانی قربانی کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی ہے۔[20]
ایک اور روایت میں امام رضا علیہ السلام نے فرمایا ہے:" مومن کی بیماری اس کے لئے رحمت اور پاک ہونے کا سبب بن جاتی ہے اور کافر کے لئے عذاب و لعنت ہے اور مومن کے لئے بیماری ہمیشہ ہے یہاں تک کہ کوئی گناہ باقی نہ رہے"۔[21]
حضرت علی علیہ السلام اولیائے الہی کی آزمائش اور ابتلاء کے فلسفہ کے بارے میں نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں:" اگر خدا وند متعال خانہ خدا اور حج کے مراسم انجام دینے کی جگہوں کو باغوں، نہروں اور سرسبز وادیوں اور گلستانوں میں قرار دیتا، تو جس قدر یہ آزمائش سادہ و آسان تھی اجر بھی ہلکا ہوتا جبکہ خداوند متعال اپنے بندوں کو قسم قسم کی سختیوں سے آزماتا ہے اور کافی مشکلات کے ساتھ عبادت کے لئے بلاتا ہے اور انواع و اقسام کی گرفتاریوں سے مبتلا کرتا ہے تاکہ کبر و خود پسندی کو ان کے دلوں سے خارج کرے اور اس کی جگہ پر فروتنی لائے اور فضل و رحمت کے دروازے ان پر کھول دے اور عفو و بخشش کے وسائل کو آسانی کے ساتھ ان کے اختیار میں قراردے"۔[22]
پس اولیائے الہی کی مصیبتوں اور ابتلاء کا فلسفہ ان کی روح و جان کی تربیت و پرورش کرنا اور انسانی کمال کے مراحل تک پہنچنا ہے۔[23]
4۔ اولیاے الہی کی زندگی میں رنج و درد کے فلسفہ کے بارے میں ایک اور نکتہ قابل توجہ ہے کہ وہ دوسروں کے لئے نمونہ عمل ہیں اوران کا نمونہ عمل ہونا اسی صورت میں مکمل اور متحقق ہوسکتا ہے جب وہ ہرجہت سے سرمشق ہوں، اگر وہ درد و رنج سے دوچار نہ ہوں تو وہ ان افراد کے لئے کیسے نمونہ عمل ہوسکتے ہیں، جو رنج و مصیبت میں مبتلا ہوں۔

بشکریہ: اسلام کوئسٹ


[1]۔ شیخ طوسی الاقتصاد الهادی، ص 31.

[2] ۔ ملاحظہ ھو: پاسخ های: 1052 (سایت: 1268) و 936 (سایت: 1166) و 76 (سایت: 319)

[3] ۔ ترجمه بدایة المعارف الالهیه، مرتضی متفی نژاد، ج 1، ص 154.

[4] ۔ ابوعلی سینا، الهیات لشفاء، ص 117 – 119.

[5] ۔ مطهری، مرتضی، عدل الهی، ص 164 – 166.

[6] ۔ حج، 61.

[7]مطهری، مرتضی، عدل الهی، ص 173 – 174.۔

[8] ۔۔ تاریخ فلسفه ویل (فراغت) ترجمه دکتر عباس زریاب خوئی، ص 249 – 250.

[9] ۔ هج البلاغه، نامه 45.

[10] ۔ اصول فلسفه و روش رئالیسم، ج 5، ص 69؛ الاسفار الاربعة العقلیه، ج 7، ص 59 – 95.

[11]۔ مطهری، مرتضی، عدل الهی، ص 181.

[12] ۔ ایضاً، ص 185.

[13] ۔ایضاً، ص 178 -181.

[14] ۔ کلینی، اصول کافی، ج 2، ص 255.

[15] ۔ دشتی، محمد، فرهنگ سخنان امام حسین (ع)، ص 145، حدیث 91.

[16] ۔ ایضاً و اخلاق اسلامى-ترجمه جلد پانزدهم بحار الانوار، ص: 194.

[17] ۔ ان اشد الناس بلاءً الانبیاء ثم الذین یلونهم ثم الامثل فالامثل کلینی، اصول کافی، ج 2، باب شدة ابتلاء المؤمن، ج 1.

[18] ۔ عبد الواحد بن محمد تمیمی آمدی، غرر الحکم و در الکلم، ج 2.

[19] ۔ مستدرک الوسائل،ج2 ،ص438

[20] ۔ کلینی، اصول کافی، ج 2، باب شده ابتلاء المؤمن، ح 23.

[21] ۔ مجلسی، بحار الانوار، ج 81، ص 183.

[22] ۔ نهج البلاغه، ص 389 – 391، خطبه 192

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .