۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
شبہات

حوزہ؍سورہ شعراء کی آیت نمبر ١۹، ١۹۵ اور ١۹٦ میں آیا ہے کہ: یہ﴿قرآن﴾ وحی ہے، خداوند متعال کی طرف سے، عربی میں اور یہ﴿قرآن﴾ اس سے پہلے والے پیغمبروں کی ﴿آسمانی﴾ کتابوب میں بھی موجود ہے۔” اب جبکہ انجیل اور توریت عبری اور یونانی زبانوں میں لکھی گئی ہیں، یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک عربی کتاب ان غیر عربی کتابوں میں موجود ہو؟

حوزہ نیوز ایجنسی؍

سوال

سورہ شعراء کی آیت نمبر ١۹، ١۹۵ اور ١۹٦ میں آیا ہے کہ: یہ﴿قرآن﴾ وحی ہے، خداوند متعال کی طرف سے، عربی میں اور یہ﴿قرآن﴾ اس سے پہلے والے پیغمبروں کی ﴿آسمانی﴾ کتابوب میں بھی موجود ہے۔” اب جبکہ انجیل اور توریت عبری اور یونانی زبانوں میں لکھی گئی ہیں، یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک عربی کتاب ان غیر عربی کتابوں میں موجود ھو؟ اس کے علاوہ اگر یہ قرآن ان کتابوں میں موجود ہے، تو یہی سورہ شعراء کی آیت نمبر ١۹۲، ١۹۵ اور ١۹٦ بھی ان کتابوں میں موجود ھونی چاہئیے۔ اس بنا پر اس سے پہلے والی کتابوں میں یہی سورے ھونے چاہئیے اور اس طرح ہم ایک بے نہایت اور مسلسل دائرے میں پہنچ جائیں گے۔

مختصر جواب

آیہ شریفہ: و انہ لفی زبر الاولین”[1] میں لفظ “انہ” کے ضمیر“ہ” کے بارے میں کئی احتمال پائے جاتے ہیں کہ ہم ذیل میں اشارہ کرتے ہیں:
١۔ شاید اس سے مراد، وہ خبر ہے، جس کے بارے میں اس آیت سے پہلے ذکر آیا ہے۔[2]
۲۔ ممکن ہے کہ اس ضمیر سے مراد قرآن مجید کی صفت ھو۔ یعنی اصل قرآن کے بارے میں دوسری آسمانی کتابوں میں ذکر کیا گیا ہے۔
۳۔ ممکن ہے کہ اس کا مراد حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ والہ وسلم ھو ۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسم گرامی دوسری تحریف نہ شدہ آسمانی کتابوں میں پایا جاسکتا ہے۔
۴۔ شائد اس سے مراد مختلف قسم کے خوف اور ترس ھو۔
مذکورہ تمام احتمالات گزشت آیتوں میں ذکر ھوئے ہیں۔[3]
اس کے باوجود اگر ہم اس ضمیر کو خود قرآن مجید کی طرف پلٹا دیں، تو ہر عقل مند انسان اس آیہ شریفہ کا مشاہدہ کرکے آسانی کے ساتھ اس نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے کہ، گزشتہ کتابوں میں قرآن مجید کے موجود ھونے سے مراد اس معنی میں نہیں ہے قرآن مجید کی تمام آیات اسی زبان اور ان ہی الفاظ میں، جنگ بدر و حنین جیسی جزئیات کے ساتھ قدیمی کتابوں میں من عن موجود ہیں، بلکہ اس کے معنی مذکور احتمالات میں سے ایک احتمال ہے اور چونکہ تمام دینی تعلیمات کے کلیات قرآن مجید میں موجود ہیں، ان کو دوسری آسمانی کتابوں میں بھی پایا جاسکتا ہے۔
اس کے علاوہ، جو یہ بیان کیا گیا ہے کہ تسلسل لازم آتا ہے، اس سلسلہ میں قابل بیان ہے، فرضاً اس کو قبول کرنے کی صورت میں بھی، کسی قسم کا تسلسل لازم نہیں آتا ہے، بلکہ یہ دائرہ پہلی نازل شدہ آسمانی کتاب تک پہنچنے کے بعد ختم ھوتا ہے۔

بشکریہ: اسلام کوئسٹ


[1] ۔ شعراء، ١۹٦

[2] ۔ شعراء، ١۹۲۔ ١۹۵۔

[3] ۔ فخرالدین رازی، مفاتیح الغیب، ج ۲۴، ص ۵۳۳دار احیاء التراث العربی، طبع سوم، بیروت، ١۴۲۰ق۔

آیات مرتبط

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .