حوزہ نیوز ایجنسی کے نمائندے نے قم المقدسہ میں مقیم ہندوستانی ممتاز شیعہ عالم دین، مولانا ڈاکٹر سید عباس مہدی حسنی سے صہیونی حکومت کی حالیہ جارحیت اور خطے کی بدلتی صورتحال پر خصوصی گفتگو کی۔ ذیل میں اس انٹرویو کی تفصیلات پیش کی جا رہی ہیں۔
سوال: اسرائیل کی حالیہ جارحیت کے بارے میں آپ کا مؤقف کیا ہے؟
مولانا سید عباس مہدی حسنی: یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کہ اسرائیل دنیا میں ظلم، بربریت اور بے رحمی کی علامت بن چکا ہے۔ اس غاصب و جعلی ریاست کی بنیاد ہی ظلم پر رکھی گئی ہے، جو روزِ اول سے لے کر آج تک انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث ہے۔ حالیہ حملے، جن میں ایران کے بے گناہ شہریوں، ان کے گھروں، انسان دوست اداروں جیسے ریڈ کراس، اور آزاد صحافت کے دفاتر کو نشانہ بنایا گیا، دراصل اسرائیل کی وحشت، کم ظرفی اور امریکی شہہ پر کی جانے والی بزدلانہ حرکتیں ہیں۔
یہ حملے اس بات کا کھلا ثبوت ہیں کہ اسرائیل نہ صرف انسانی اقدار کا دشمن ہے بلکہ اسے کسی بھی بین الاقوامی ضابطے یا اخلاقی معیار کی پرواہ نہیں ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اسے امریکہ اور مغربی طاقتوں کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے، اسی لیے وہ کھلے عام جنگی جرائم کا ارتکاب کرتا ہے۔
سوال: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ عالمی ادارے یا انسانی حقوق کی تنظیمیں اپنی ذمہ داری نبھا رہی ہیں؟
مولانا سید عباس مہدی حسنی: بدقسمتی سے آج کا عالمی نظام، خصوصاً اقوامِ متحدہ، صرف طاقتوروں کے مفاد کی حفاظت میں مصروف ہے۔ فلسطین میں دہائیوں سے خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں، لاکھوں افراد بے گھر ہوئے، ہزاروں بچے یتیم اور عورتیں بیوہ ہو چکی ہیں، مگر دنیا خاموش ہے۔ ریڈ کراس جیسا عالمی ادارہ بھی اگر حملوں سے محفوظ نہ رہے تو پھر باقی کس کی بقا کی ضمانت ہے؟
انسانی حقوق کی تنظیمیں محض کاغذی قراردادیں پاس کرتی ہیں لیکن جب عملی اقدام کا وقت آتا ہے تو ان کا رویہ شرمناک حد تک کمزور اور جانبدارانہ ہوتا ہے۔ مظلوموں کے حق میں خاموشی، اور ظالموں کے ساتھ تجارتی، عسکری اور سفارتی تعلقات کا مطلب یہی ہے کہ دنیا کا ضمیر سو چکا ہے، یا فروخت ہو چکا ہے۔
سوال: ایران کے ایٹمی پروگرام کو بنیاد بنا کر اسرائیل حملہ آور ہوا ہے، اس بارے میں آپ کا مؤقف؟
مولانا سید عباس مہدی حسنی: یہ محض ایک بہانہ ہے، ایک پرانا اور بار بار دہرایا گیا جھوٹا پروپیگنڈہ۔ ایران نے بارہا دنیا کے سامنے یہ واضح کیا ہے کہ ایٹمی توانائی کا پرامن استعمال ہر ملک کا قانونی و اخلاقی حق ہے۔ ایران کے سپریم لیڈر خود فتویٰ دے چکے ہیں کہ ایٹم بم بنانا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے اور ایک حرام عمل ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ادارے IAEA نے بارہا تصدیق کی ہے کہ ایران کا ایٹمی پروگرام پرامن ہے۔
اس کے باوجود مغربی ممالک خاص طور پر امریکہ اور اسرائیل ایران کو ایٹم بم بنانے کا الزام لگا کر عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ وہ ایک خود مختار، باوقار اور طاقتور اسلامی جمہوریہ ایران کو برداشت نہیں کر پا رہے۔ حالانکہ اسرائیل کے پاس خود سینکڑوں ایٹمی ہتھیار موجود ہیں، اور وہ NPT جیسے معاہدوں کا پابند بھی نہیں ہے۔ دوسری طرف ایران ایک ذمے دار ریاست کی حیثیت سے NPT پر دستخط کر چکا ہے۔
سوال: آپ نے ٹرمپ کی جانب اشارہ کیا، اس کا پس منظر واضح کریں۔
مولانا سید عباس مہدی حسنی: ٹرمپ کا کردار دنیا کے سامنے کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ایک ایسا شخص جو جوئے، شراب، نسل پرستی، اور اخلاقی دیوالیہ پن کا نمائندہ ہے، وہ عالمی قیادت کا دعوے دار کیسے ہو سکتا ہے؟ اس نے نہ صرف فلسطینی مظلوموں کے زخموں پر نمک چھڑکا بلکہ رہبرِ انقلاب اسلامی جیسی عالمی شخصیت کی شان میں گستاخی کر کے تمام مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا۔
ہم اس توہین کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔ رہبرِ انقلاب اسلامی نہ صرف ایرانی قوم کے لیے، بلکہ پوری امتِ مسلمہ کے لیے ایک روحانی اور فکری رہنما کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہم واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ اگر ان کی ذاتِ گرامی کو کوئی گزند پہنچانے کی کوشش کی گئی، تو ہم اپنی جانیں قربان کر دیں گے، لیکن دشمن کو چین سے جینے نہیں دیں گے۔ ٹرمپ اور اس کے اندھ بھگتوں کو ہم بتا دینا چاہتے ہیں کہ امتِ مسلمہ بیدار ہے اور اپنے مقدسات کے دفاع میں ہر حد تک جائے گی۔
سوال: آخر میں امتِ مسلمہ اور انسان دوست اقوام کے لیے آپ کا کیا پیغام ہے؟
مولانا سید عباس مہدی حسنی: آج ہمیں دشمن کو پہچاننے اور اپنی صفوں کو درست کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اسرائیل اور اس کے سرپرست صرف ایران یا فلسطین کے دشمن نہیں بلکہ وہ اسلام، انسانیت اور تمام آزاد اقوام کے دشمن ہیں۔ ان کے مقابلے کے لیے صرف مذمتی بیانات کافی نہیں، ہمیں عملی اتحاد، شعوری بیداری، اور میدانِ عمل میں اخوت و اخلاص کے ساتھ اُترنا ہوگا۔
میں تمام اہلِ اسلام، اہلِ ایمان، اور انسان دوست اقوام سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنی آنکھیں کھولیں، ان ظالموں کے خلاف یکجا ہوں، اور اپنے مظلوم بھائیوں کی ہر ممکن مدد کریں۔ اگر ہم نے اب بھی اتحاد نہ کیا، تو کل تاریخ ہمیں بھی ظالموں کا ساتھی قرار دے گی۔
سوال: مولانا صاحب، آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے وقت نکالا اور مدلل انداز میں ان حساس موضوعات پر روشنی ڈالی۔
مولانا سید عباس مہدی حسنی: میں بھی آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میرا یہی پیغام ہے کہ جہاں کہیں بھی ظلم و بربریت کے خلاف خاموشی ہو، ہمیں اس کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے، اب چاہے وہ فلسطین ہو، ایران ہو یا دنیا کا کوئی بھی خطہ۔ خاموشی خود ایک جرم ہے۔









آپ کا تبصرہ