حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مزاحمتی تحریک انصار اللہ یمن کے سربراہ نے خطے کی تازہ ترین صورتحال اور غزہ کی پٹی اور لبنان پر غاصب صیہونی حکومت کی جارحیت کے بارے میں ایک اہم خطاب کے دوران کہا ہے کہ حزب اللہ کی انتظامی کونسل کے سربراہ، عظیم مجاہد اور عالم دین شہید سید ہاشم صفی الدین کا مزاحمتی کردار نمایاں اور متاثر کن تھا، جو در حقیقت ان کے جہادی عزم، پختہ ایمان اور علم و بصیرت کا نتیجہ تھا۔
سید عبد المالک الحوثی نے مزید کہا کہ غاصب صیہونی مجرم دشمن کے مقاصد میں سے ایک مزاحمتی قائدین کو نشانہ بنا کر قوم اور مجاہدین کے حوصلے پست کرنا ہے، لیکن یہ اس کی بھول ہے، تاہم نفرت و عداوت نے دشمن سے تاریخی حقائق کو سمجھنے کی صلاحیت چھین لی ہے اور اسے درندگی کی راہ پر ڈال دیا ہے۔
انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ محور مقاومت پوری اگہی، فہم و فراست، بصیرت، ثابت قدمی اور ایمان کے ساتھ مزاحمت کا پرچم اٹھائے ہوئے ہے، کہا کہ قائدین نے مزاحمتی محاذوں پر ثابت قدمی اور ہم آہنگی کے ساتھ دشمنوں کا مقابلہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔ سہولتوں اور صلاحیتوں کے لحاظ سے انتہائی مشکل حالات کے باوجود غزہ کا محاذ ایک سال سے زیادہ عرصے سے مستحکم اور مضبوط ہے اور زیادہ مؤثر انداز سے دشمن کے خلاف مزاحمت کر رہا ہے۔
سید بدر الدین حوثی نے مزید کہا کہ لبنانی محاذ کو شدید ترین جنگ کا سامنا ہے اور صیہونی دشمن ابھی تک فرنٹ لائن پر واقع کچھ دیہاتوں کو کنٹرول کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے، جبکہ اس مرحلے پر لبنانی محاذ کے مجاہدین کی استقامت اور بہادری جولائی 2006 کی جنگ سے بھی زیادہ پختہ ہے۔
مزاحمتی تحریک انصار اللہ یمن کے سربراہ نے تاکید کی کہ امریکہ، صیہونی حکومت اور برطانیہ کی جارحیت کی وجہ سے یمن کے محاذ پر دباؤ کے باوجود اس نے غزہ کی حمایت جاری رکھی ہے اور کسی دباؤ کے سامنے ہتھیار ڈالنا یا پیچھے ہٹنا گوارا نہیں کیا۔
انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ عراقی محاذ نے بھی اپنی پوزیشن بہتر کر لی ہے اور بڑے اہداف حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، کہا کہ تمام اقوام بالخصوص عرب ممالک پر فرض ہے کہ وہ غزہ اور لبنان کی جامع حمایت کریں اور اس سلسلے میں ان کا مؤقف مثبت اور تکمیلی ہونا چاہیے، لیکن ایک سال سے زائد عرصے سے مزاحمتی محاذوں کی ثابت قدمی اور بہادری کے باوجود، ان (عرب ممالک) میں سے بعض مایوسی پھیلاتے ہوئے مزاحمت کے خلاف مؤقف اختیار کر رہے ہیں اور بعض پیٹھ پر چھرا گھونپ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صیہونی دشمن کی نسل کشی اور بچوں اور خواتین کو نشانہ بنانا کوئی فوجی کامیابی نہیں ہے، بلکہ یہ اس کی بوکھلاہٹ کی علامت ہے، کیونکہ وہ فوجی کامیابیوں کی سطح پر ناکام ہوچکا ہے اور اس کی ناکامی غزہ، لبنان اور تمام محاذوں پر واضح ہے۔
الحوثی نے کہا کہ مسلمانوں کے مفاد میں ہے کہ وہ پوری سنجیدگی سے مزاحمت کے ساتھ کھڑے ہوں اور ثابت قدم اور مستحکم محاذوں کی حمایت کریں۔ امریکہ، جرمنی، فرانس اور برطانیہ سبھی نے اپنے ہتھیاروں کے ذخیرے اسرائیلی دشمن کے لیے کھول دیے ہیں، جبکہ عرب ممالک لاتعلق ہیں۔
انصار اللہ یمن کے سربراہ نے مزید کہا کہ صہیونیوں کا جرم انتہائی بھیانک اور وحشیانہ ہے اور وہ غزہ کے عوام کو ہر قسم کی نسل کشی کا نشانہ بناتے ہیں۔ صیہونی دشمن غزہ کی پٹی کے شمال میں جبری نقل مکانی اور نسل کشی کا مرتکب ہو رہا ہے، غزہ کے شمال میں صہیونی دشمن کی وحشیانہ خون ریزی نے ہر اس شخص کو بولنے پر مجبور کیا، جس کے اندر انسانیت کی تھوڑی سی رمق باقی ہے۔ غزہ پر صیہونیوں کی بربریت اور بھیانک جرائم کے باوجود ملت اسلامیہ ٹس سے مس نہیں ہوتی، یہ نہایت شرم اور گناہ کی بات ہے، جبکہ فلسطین پر جاری مظالم نے لاطینی امریکہ کے غیر مسلم لوگوں کے ضمیر کو بھی جگا دیا ہے، لاطینی امریکہ میں اسرائیلی حکومت کے خلاف فیصلے کیے گئے جو کہ کئی عرب ممالک نہیں کرسکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ صیہونیوں کے جرائم میں اضافے کے ساتھ جیسا کہ غزہ کی پٹی کے شمال میں ہو رہا ہے، عرب ممالک کا ردعمل اس سطح پر نہیں تھا، جبکہ یورپ اور امریکہ میں لوگ غزہ کی حمایت میں احتجاج کر رہے ہیں، لیکن ہمارے ہاں امت عربیہ مر چکی ہے۔ غزہ اور فلسطین کے بارے میں عرب ممالک کے منفی موقف نے غیر عرب اسلامی ممالک کے مؤقف پر بھی منفی اثر ڈالا ہے۔
سید بدر الدین نے کہا کہ اسرائیلی دشمن کے جرائم جتنے بڑھتے جائیں گے، امت مسلمہ بالخصوص عرب ممالک کی ذمہ داری اتنی ہی بڑھ جاتی ہے، صیہونی عرب ممالک کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ نشانہ بناتے ہیں، حالانکہ بعض ان ثابت شدہ حقائق کو نظر انداز کرتے ہیں اور ان سے نظریں چراتے ہیں۔
انصار اللہ یمن کے سربراہ نے اس بات پر تاکید کی کہ صیہونیت کا منصوبہ اپنے اردگرد کے عرب جغرافیائی خطوں پر براہ راست قبضہ، جبکہ باقی عرب ممالک کو کنٹرول کر کے نشانہ بنانا ہے۔ صہیونی منصوبہ جارحانہ ہے جو ہماری قوم کی شناخت کو مٹا کر وطن پر قبضہ کر کے آزادی چھین لینا چاہتا ہے۔ تاہم دشمن کا یہ شوم منصوبہ بالآخر ناکام ہو گیا، کیونکہ یہ ایک مجرمانہ سوچ ہے جو پوری انسانیت کے لیے خطرہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم ایک ہدف مند قوم ہیں اور اسرائیلی دشمن سے تصادم ناگزیر اور یقینی ہے۔ غیر جانبداری پر اصرار کرنے والوں نے تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے اسرائیل اور امریکہ سے وفاداری جبکہ امت سے غداری کی ہے، جس کے نتیجے میں وہ خسارے میں ہیں، اگر صیہونی دشمن فلسطینی مجاہدین اور مزاحمتی محاذوں پر غالب آجاتا ہے تو وہ دوسروں پر بھی حملہ کرے گا اور ان کی یہ غیر جانبداری، سمجھوتہ اور خیانت اس کے لیے اہمیت نہیں رکھتی ہے۔
سید عبد المالک بدر الدین الحوثی نے اپنے خطاب کے آخر میں کہا کہ فلسطین اور عالمی سطح پر یحییٰ السنوار کی شہادت کے اثرات کو روکنے کے لئے صہیونی دشمن کی طرف سے ان کے شرافت مندانہ مزاحمتی کردار کو مسخ کرنے کی کوششیں ناکام ہوں گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ صیہونی دشمن کے اہداف کے برعکس، السنوار کی شہادت ان کے عظیم شجاعت مندانہ مؤقف اور متاثر کن مزاحمت کی ابدی فتح کی نمائندگی کرتی ہے۔