حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، تجمع علمائے مسلمان لبنان کی انتظامیہ نے ایک اجلاس میں جاری شدہ بیانیہ میں کہا: لبنان کی حکومت ہٹ دھرمی اور کھوکھلی دھمکیوں کے ساتھ مزاحمتی ہتھیاروں کے مسئلے کو چھیڑ رہی ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ کل انہوں نے ایک مضحکہ خیز ڈرامہ رچایا جسے وہ کیمپوں کے ہتھیاروں کی حوالگی کا نام دے رہے تھے۔
اس اجتماع نے کہا: یہ بات ظاہر ہو گئی ہے کہ یہ فلسطینی اتھارٹی اور لبنانی حکومت کے درمیان شہریوں سے کرائے کے پک اپ ٹرک میں لے جانے والے اسکریپ دھات کے حوالے کرنے کا ایک خفیہ معاہدہ تھا۔ فلسطینی مزاحمتی گروہوں نے صاف طور پر اعلان کیا کہ ہتھیاروں کی حوالگی جیسی کوئی چیز موجود نہیں ہے اور کیمپوں کے ہتھیار حقِ واپسی سے وابستہ ہیں اور جب تک تمام فلسطینی پناہ گزین اپنے وطن واپس نہ لوٹیں، یہ ہتھیار حوالے نہیں کیے جائیں گے۔
تجمع علمائے لبنان نے کہا: لبنان کے مزاحمتی ہتھیاروں کا موضوع ایک حساس مسئلہ ہے، جس سے قومی مفادات کی بنیاد پر نمٹا جانا چاہیے تاکہ لبنان کی آزادی، حاکمیت اور خودمختاری اس وقت تک محفوظ رہے جب تک تمام مقبوضہ علاقے آزاد نہ ہو جائیں، صہیونی حکومت کی جارحیتیں رک نہ جائیں اور قیدی واپس نہ آ جائیں۔ ظاہر ہے اگر ہتھیار حوالے کر دیے جائیں تو یہ سب ممکن نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا: پیش گوئی کی جاتی ہے کہ صہیونی دشمن کی جانب سے مقبوضہ علاقوں میں اضافہ ہوگا کیونکہ یہ دشمن اپنے بعض حکام کے ذریعے دھمکیاں دے رہا ہے کہ وہ جنوب لبنان کے مزید دیہاتوں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے اور سن 2000 سے پہلے کے قبضے سے بھی زیادہ فاصلے تک پہنچنا چاہتا ہے۔
اس اجتماع نے مزید کہا: لبنانی حکومت کو چاہیے کہ وہ امریکی منصوبے کے نام نہاد تاش کے پتوں پر مبنی فیصلوں کو معطل کرے اور ایسے سمجھے جیسے وہ کبھی وجود ہی میں نہیں تھے، یہاں تک کہ صہیونی دشمن کے زیر قبضہ علاقوں سے انخلا مکمل ہو جائے، فضائی، زمینی اور بحری تجاوزات رک جائیں اور قیدی واپس لوٹ آئیں۔ تب جا کر اس بات پر گفتگو کی جا سکتی ہے کہ مزاحمتی ہتھیاروں کو قومی دفاعی نظام میں کس طرح استعمال کیا جائے۔









آپ کا تبصرہ