حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل شیخ نعیم قاسم نے معروف کمانڈر شہید فواد شکر کی پہلی برسی کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا: فواد شکر نے سن 1982 سے قبل ہی 10 مجاہدین پر مشتمل ایک گروہ "گروہِ میثاق" کے نام سے تشکیل دیا تھا، جنہوں نے یہ عہد کیا تھا کہ وہ اسرائیل سے مقابلہ کریں گے اور ہمیشہ میدانِ اول میں حاضر رہیں گے۔ اس گروہ کے 9 ارکان کی شہادت کے بعد فواد شکر 35 برس تک شہادت کا انتظار کرتے رہے۔
شیخ نعیم نے بتایا کہ فواد شکر، امام خمینیؒ کے گہرے عقیدت مند تھے اور آپ کی رحلت کے بعد، وہ رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہای کے پیروکار بن گئے۔ وہ حزب اللہ کے بانیوں میں شامل اور ابتدائی فوجی کمانڈروں میں سے ایک تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ فواد شکر نے شہید عباس الموسوی کی شہادت کے بعد کفرا اور یاطر کے معرکوں کی قیادت کی۔ جب حزب اللہ نے مجاہدین کو بوسنیا بھیجنے کا فیصلہ کیا تو ان کی قیادت بھی انہی کے سپرد کی گئی۔ وہ حزب اللہ کے بحری یونٹ کے بانی بھی تھے۔
شیخ نعیم قاسم کے بقول، فواد شکر جنگی محاذ کے اسٹیریجک اور کمانڈ کے مرکز میں کلیدی حیثیت رکھتے تھے اور شہادت تک سید حسن نصر اللہ کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھے۔ وہ نہ صرف عوام کے درمیان رہتے تھے بلکہ ایک منفرد حکمت عملی کے حامل فرد بھی تھے۔
انہوں نے مزید کہا: ہم شہید اسماعیل ہنیہ کو بھی خراج عقیدت پیش کرتے ہیں، جنہوں نے فلسطین کا پرچم بلند رکھا اور اس مسئلے کو دنیا کی پہلی ترجیح بنایا۔
انہوں نے صہیونی جرائم کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل اور امریکہ روزانہ غزہ میں منظم اور سوچے سمجھے جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ آج کی دنیا میں اسرائیلی ظلم و بربریت کی کوئی مثال نہیں ملتی، اور عالمی برادری کو چاہیے کہ اسرائیل کے خلاف متحد ہو جائے تاکہ انسانیت پر یہ ظلم بند ہو۔
شیخ نعیم قاسم نے فلسطین نواز لبنانی اسیر جورج عبداللہ کو بھی سلام پیش کیا، جو 41 سال سے قید میں ہیں لیکن کبھی اپنے نظریات سے دستبردار نہیں ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ جورج عبداللہ بھی مقاومت کی تاریخ کا حصہ ہیں۔
شیخ نعیم کا کہنا تھا: "لبنان میں مزاحمت (مقاومت) نے ثابت کیا ہے کہ یہ ایک مستحکم ریاست کے قیام کی بنیاد ہے۔ ہم دو محاذوں پر کام کر رہے ہیں: پہلا دشمن سے آزادی اور دوسرا عوامی شراکت کے ذریعے ایک مضبوط ریاست کی تعمیر۔ ہماری مزاحمت صرف علامتی نہیں بلکہ فوج، عوام اور مزاحمت کی تین جہتی عملی قوت ہے۔"
انہوں نے مزید کہا: "جنگ بندی کا معاہدہ لبنان اور اسرائیل دونوں کے لیے کامیابی تھا۔ ہم نے حکومت کی مدد کی تاکہ یہ معاہدہ جنوب لبنان تک نافذ ہو۔ اگر کوئی جنگ بندی کو ہتھیار ڈالنے سے جوڑتا ہے تو اسے کہہ دو کہ یہ ایک داخلی معاملہ ہے۔"
شیخ نعیم قاسم نے واضح الفاظ میں کہا: "انہوں نے سمجھا کہ حزب اللہ کمزور ہو چکا ہے، لیکن شہداء کے جنازوں میں عوامی شرکت، سیاسی موجودگی اور بلدیاتی انتخابات میں ہماری قوت نے دشمن کو حیران کر دیا۔ حزب اللہ آج بھی سیاسی اور سماجی طور پر مضبوط ہے۔"
انہوں نے کہا کہ: "مزاحمتی اسلحہ لبنان سے وابستہ ہے نہ کہ اسرائیل سے۔ امریکا کے نمائندے ہوکشتاین نے اسرائیل کی جنگ بندی کی یقین دہانی کرائی، اور موجودہ امریکی نمائندہ تام باراک لبنانی مؤقف سے حیران ہو گیا کہ ہم جنگ بندی سے پہلے اسلحے پر بات کرنے کو تیار نہیں۔"
شیخ نعیم نے مزید کہا: "اسرائیل پانچ مقبوضہ علاقوں پر رکنے والا نہیں، وہ مزاحمت کو بے اسلحہ کر کے مزید قبضے اور بستیوں کی تعمیر کی کوشش کرے گا۔ ہم نے شام میں دیکھا ہے کہ دشمن کس طرح بمباری اور قتل عام سے سرحدیں اور مستقبل کا تعین کرتا ہے۔"
انہوں نے انتباہ کیا کہ لبنان آج اسرائیل، داعش اور امریکہ کے نئے مشرق وسطیٰ منصوبے کے ذریعے وجودی خطرے سے دوچار ہے۔
انہوں نے زور دے کر کہا: "ہم ہرگز اجازت نہیں دیں گے کہ لبنان اسرائیل کا ضمیمہ بن جائے، چاہے پوری دنیا اس پر متفق ہو جائے۔ ہم اپنی آخری سانس تک مزاحمت کریں گے۔ جو لوگ اسلحہ کے سپرد کیے جانے کی بات کرتے ہیں، درحقیقت وہ اسرائیل کے ہاتھ مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔"
انہوں نے واضح کیا:"ہم اپنے وطن کا دفاع کریں گے، چاہے ہم میں سے کئی شہید کیوں نہ ہو جائیں، لیکن دشمن کی جارحیت برداشت نہیں کریں گے۔ ہم کوئی دھمکی نہیں دے رہے بلکہ دفاعی مؤقف پر ہیں، اور ہمارا دفاع کسی حد یا قید کا محتاج نہیں، چاہے اس کی قیمت ہماری جان ہی کیوں نہ ہو۔"
انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ: "حملے بند کروانے اور ملک کی تعمیرِ نو کی دو بنیادی ذمہ داریاں سنبھالے، یہاں تک کہ اپنے خزانے سے بھی اگر ہو۔ جو بھی لبنان میں یا باہر اسلحہ کی واپسی کا مطالبہ کرتا ہے، وہ اسرائیلی منصوبے کا مددگار ہے۔"
آخر میں انہوں نے کہا: "پہلے جارحیت بند کرو، اسرائیل پیچھے ہٹے، اور اسیران واپس آئیں، پھر آ کر ہم سے بات کرو۔ ہم خودمختاری، آزادی اور آزاد فیصلوں کے قائل ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ جارحیت کے خلاف مضبوطی سے کھڑی ہو، ملک کی تعمیر کرے، اور فتنہ انگیز عناصر کو روکے۔"
انہوں نے نعرہ لگایا: "آؤ ہم سب مل کر یہ نعرہ بلند کریں: 'ہماری وحدت کے ذریعے اسرائیل کو نکال باہر کریں اور اپنے وطن کی تعمیر کریں!' ہم بات کرنے کے لیے تیار ہیں کہ یہ اسلحہ لبنان کی طاقت کیسے بن سکتا ہے، لیکن یہ کبھی اسرائیل کو نہیں دیں گے۔ چاہے پوری دنیا متحد ہو جائے، اور ہم سب شہید ہو جائیں، پھر بھی اسرائیل لبنان کو یرغمال نہیں بنا سکتا۔"









آپ کا تبصرہ