۲۶ شهریور ۱۴۰۳ |۱۲ ربیع‌الاول ۱۴۴۶ | Sep 16, 2024
News ID: 401714
23 اگست 2024 - 15:33
اربعین حسینی

حوزہ/ ظلم بمعنی اعم اگر دیکھا جائے تو یہ کسی سے مخفی نہیں ہے کہ اس لحاظ سے دور حاضر کی مذکورہ بالا دو ہی صورت بنتی ہےلہذا اب یہ سوال معقول ہے کہ ایسے پر آشوب زمانے میں اہل ایمان کے کیا فرائض ہیں جنکی انجام دہی سے پناہ و امن کی چارہ گری کی جاسکے 

حوزہ نیوز ایجنسی |

تحریر : شیخ محمد وقارؔ حیدر'املوی

متعلم : جامعہ امام مہدی عج أعظم گڑھ

وَمَا لَكُمۡ لَا تُقَٰتِلُونَ فِي سَبِيلِ ٱللَّهِ وَٱلۡمُسۡتَضۡعَفِينَ مِنَ ٱلرِّجَالِ وَٱلنِّسَآءِ وَٱلۡوِلۡدَٰنِ ٱلَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَآ أَخۡرِجۡنَا مِنۡ هَٰذِهِ ٱلۡقَرۡيَةِ ٱلظَّالِمِ أَهۡلُهَا وَٱجۡعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيّٗا وَٱجۡعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا. سورۂ نساء ٧٥

مسلمانوں تم کو کیا ہوا ہے کہ خدا کی راہ میں اور اُن بےبس مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑتے جو دعائیں کیا کرتے ہیں کہ ائے پروردگار ہم کو اس شہر سے جس کے رہنے والے ظالم ہیں نکال کر کہیں اور لے جا۔ اور اپنی طرف سے کسی کو ہمارا حامی بنا۔ اور اپنی ہی طرف سے کسی کو ہمارا مددگار مقرر فرما۔

بے شک و تردید قرآن مجید وہ الٰہی آسمانی و ابدی کتاب ہے جکسا تعلق کسی خاص زمانے سے نہیں ھے وہ ہر دور ہر زمانے میں بنی نوع انسانی کے ہر طبقہ کیلیے مشعل راہ بنی ہوئی ہے۔

قطع نظر اسکے اسالیب و طرز بیان فصاحت و بلاغت کے فقط الفاظ حروف کا قالب اپناۓ ہوۓ الہی پیغامات اور اسکے بلند مرتبہ مفاہیم کی طرف نگاہ کی جاۓ تو یہ عقل انسانی کیلیئے کس قدر واضح ہوجاتا ہے کہ اس مصحف الہیٰ سے نکلتی ہوئیں شعاعیں ہر دور میں موجود انسانوں کی زندگی کے تمام ابعاد و مراحل پر محیط ہیں'۔

بطور اثبات اگر ہم عصر حاضر کے ماحول کیطرف نگاہ کریں'تو دو طرح کی صورتحال نظر آتی ہے

١؀ظلم و جنایت کاری

٢؀تشدد و بربریت کا شکار ہونے والے مظلومین

مکمل تاریخ آدمیت میں شاذ و نادر صاحبان عقل و بصیرت کو ایسا ماحول نظر آۓ جہاں انسان قدرِ ظلم کرنے یا سہنے سے محفوظ رہا ہو۔

ظلم بمعنی اعم اگر دیکھا جائے تو یہ کسی سے مخفی نہیں ہے کہ اس لحاظ سے دور حاضر کی مذکورہ بالا دو ہی صورت بنتی ہےلہذا اب یہ سوال معقول ہے کہ ایسے پر آشوب زمانے میں اہل ایمان کے کیا فرائض ہیں جنکی انجام دہی سے پناہ و امن کی چارہ گری کی جاسکے

محترم قارئین کرام

اسکا جواب آغاز تحریر ہی میں دیا جا چکا ہے اور وہ یہ کہ قرآن مجید جو کہ ہر دور میں انسانی زندگی کے تمام گوشوں پر گہری نگاہ رکھے ہوۓ ہے جو ہدایت جن و بشر کا سرچشمہ ہے لہذا اس مسئلہ میں بھی اسی کی طرف رجوع لازم آتا ہے

چنانچہ جو ایک ابدی پیغام ان آیات میں خداوند متعال نے دیا ہے وہ اس زمانے کی صورت حال کے عین مطابق نظر آتا ہے

ارشادِ باری تعالٰی ہوتا ہے

وَمَا لَكُمۡ لَا تُقَٰتِلُونَ فِي سَبِيلِ ٱللَّهِ وَٱلۡمُسۡتَضۡعَفِينَ مِنَ ٱلرِّجَالِ وَٱلنِّسَآءِ وَٱلۡوِلۡدَٰنِ ٱلَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَآ أَخۡرِجۡنَا مِنۡ هَٰذِهِ ٱلۡقَرۡيَةِ ٱلظَّالِمِ أَهۡلُهَا وَٱجۡعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيّٗا وَٱجۡعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا

سورۂ نساء ٧٥

اور تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم قتال نہیں کرتے اللہ کی راہ میں اور ان بےبس مردوں عورتوں اور بچوں کی خاطر جو مغلوب بنا دیے گئے ہیں جو دعا کر رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ہمیں نکال اس بستی سے جس کے رہنے والے لوگ ظالم ہیں اور ہمارے لیے اپنے پاس سے کوئی حمایتی بنا دے اور ہمارے لیے خاص اپنے فضل سے کوئی مددگار بھیج دے۔

اس آیہ کریمہ کا پس منظر یہ ہے کہ ہجرت کے بعد جو مسلمان مکہ میں رہ گئے تھے کفار مکہ نے انہیں بیحد ستایا جب ان غریبوں و مظلوموں کیلئے کوئی چارہ کار نہیں رہ گیا تو پروردگار عالم نے حکم جہاد دے دیا اور مستضعفین کی حمایت و نصرت کو صاحبان ایمان پر لازم قرار دیا تاکہ ان ستم رسیدہ افرادکا دفاع کرکے انہیں کفار مکہ کے ظلم و ستم سے آزاد کرایا جا سکے

بالکل بعینہٖ اس زمانے میں بھی ہر اس صاحب دل کا فریضۂ ایمانی یہی ہے کہ جسکے دل میں ایمان بالتوحید کی شمع جل رہی ہو،

اسلام نے ظلم کے خلاف مظلومین کی حمایت کو فریضۂ ایمانی ، اور توحید پرستوں کا شعار بتایا ہے،چنانچہ ارشاد الہی ہوتا ہے

ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ يُقَٰتِلُونَ فِي سَبِيلِ ٱللَّهِۖ

سورۂ نساء ٧٦

جن لوگوں نے ایمان کا راستہ اختیار کیا ہے ‘ وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں ۔ “اور یہ بھی واضح کردیا کہ جو بھی ذات پروردگار کا منکر ہوگا وہ طاغوت کی حمایت میں صاحبان ایمان پر حملہ آور ہوگا۔

وَٱلَّذِينَ كَفَرُواْ يُقَٰتِلُونَ فِي سَبِيلِ ٱلطَّـٰغُوتِ فَقَٰتِلُوٓاْ أَوۡلِيَآءَ ٱلشَّيۡطَٰنِۖ إِنَّ كَيۡدَ ٱلشَّيۡطَٰنِ كَانَ ضَعِيفًا

سورۂ نساء ٧٦

اور اہل کفر ہمیشہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں'لہذا تم‌ شیطان کے ساتھیوں سے جہاد کرو بیشک شیطان کا مکر بہت کمزور ہوتا ہے ،غور طلب بات ہے کہ اگر خدا نے زمانہ ماضی میں مجبور و محصور صاحبان ایمان پر کافرین مکہ کا جبر و ستم برداشت نہیں کیا اور ہجرت کرنے والے مہاجرین کو حکم دے دیا کہ وہ ان مستضعفین کی حمایت کریں ،پس یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اس پر آشوب دور میں ہمارے مسلمان مومن بھائی بہنوں بچوں پر ہو رہے مظالم‌ کیخلاف ہماری کنارہ کشی اور غفلت سے راضی ہوجائے قطعاً نہیں،جس طرح اس زمانے میں مظلومین و مستضعفین کی حمایت کاری انکا دفاع صاحبان ایمان کیلیئے لازم تھا اسی طرح عصر حاضر میں بھی ان صاحبان ایمان کا فریضۂ ایمانی ہے جنکے دلوں میں ایمان بالتوحید کی شمع روشن ہے کہ وہ حتی الامکان مظلومین کی حمایت کریں،اب وہ مظلومین ہم‌مسلک و مذہب ہوں یا نہ ہوں اسکی قید نہیں ہے ،ہم‌مسلک و مذہب مظلومین مثلاً اہل فلسطین ،(جہاں مقتلولین کی تعدا حال ہی میں 000'40 سے تجاوز کر چکی ہے)اور گذشتہ چند روز میں پاراچنار میں قتل ہونے والے مظلومین و دیگر مظلومین کے حق میں بولنا ضروری اس لیے ہے کیونکہ ایک طرف یہ انسانیت کا تقاضا ہے

اور اس سے بالاتر امر الٰہی ہے جو زبان معصوم سے ہم تک پہنچا ہے چنانچہ حضرت امام علی علیہ السّلام اپنی وصیت میں فرماتے ہیں۔

وكونا للظالم خصما وللمظلوم عونا.

ظالم کے دشمن اور مظلوم کے حمایت کار بننا،

بحار الأنوار - العلامة المجلسي - ج ٤٢ - الصفحة ٢٥٦

ہر دور میں شعار ایمانی یہی ہے کہ ظالم‌و سرکش طاغوت کے خلاف خاموش نہ رہا جاۓ کیونکہ ظلم کو برداشت کرنا در حقیقت ظالم کی حمایت ہے اور ظالم کی حمایت گمراہی ہے ظلم اس لیے بھی جایز نہیں ہے کیونکہ وہ عدل الہی کے خلاف ہے اور ظالم طاغوت کی حمایت فکری اعتبار سے اسکا غلام ہونے کے مترادف ہے،اور بندگی صرف خداوند عالم کی بجا ہے اور کسی کی نہیں

چنانچہ ارشاد امیرالمؤمنین علیہ السّلام ہوتا ہے

لا تَكُن عَبدَ غَيرِكَ وَقَد جَعَلَكَ اللّه ُ حُرّا

کسی کے غلام نہ بنو کیونکہ خدا نے تمہیں آزاد بنایا ہے

ميزان الحكمة - محمد الريشهري - ج ١ - الصفحة ٥٨٢

اگر ظالم کی حمایت کی جاۓ تو سراسر یہ اسکی غلامی ہے اور اس لیے اسلام نے صراحتاً نہی کردی کہ خبردار کسی کے غلام نہ بننا کیونکہ اگر کسی کے غلام بن جاؤگے تو تم سے حق کا کماحقہ اتباع نہیں ہو سکے گا ( البتہ یہاں غلامی سے مراد فکری و معنوی اعتبار سے غلام ہونا ہے )

اور یہ بات بھی واضح کرتا چلوں کہ اس دور میں جو نفس پرست خود پسند باطل کے (یعنی امریکہ و برطانیہ و اسرائیل کے) حمایت کار بنے بیٹھے ہیں یہ ایسے افراد ہیں جو طاغوت کی غلامی کو اپنا افتخار سمجھتے ہیں اور طاغوت کو اپنا پشت پناہ بناۓ بیٹھے ہیں اور ایسے ظلم پیشہ افراد مظلومین جہان کی آزادی حریت انکے استقلال کے منکر ہیں، انہیں چونکہ طاغوت کی غلامی پسند ہے لہذا ایسے افراد استقلال و انقلاب پسند عناصر سے خوف کھاتے ہیں اور انکی حمایت سے دستبردار رہتے ہیں'،

لیکن اسکے برخلاف اہل ایمان استقلال پسند انقلابی روح کے حامل ہوتے ہیں جو کسی کی غلامی نہیں قبول کرتے،اور حق بجانب رہ کر شر پسند گروہ کے سامنے اپنی حریت کا اعلان کرتے ہیں ،

یہ نه ظلم سہتے ہیں اور نہ اپنے ہم مسلک و مذہب پر بلکہ اپنے جیسے انسانوں پر بھی بے جا ظلم و استبداد برداشت نہیں کرتے اور قرآن کریم میں یہی پیغام خداوند عالم نے دیا ہے اگر ایک نظر قرآن کریم کے انداز تخاطب پہ کی جاۓ تو اندازہ ہوگا کہ کس طرح مظلومین و مستضعفین کی حمایت کیلئے خدا اہل ایمان کی رگ حمیت کو پڑھکا رہا ہے،

چنانچہ ارشاد ہوتا ہے

وَمَا لَكُمۡ لَا تُقَٰتِلُونَ فِي سَبِيلِ ٱللَّهِ

(مسلمانوں تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ اللہ کی راہ میں جہاد نہیں کرتے)لیکن سوال یہ ہے کہ وہ کونسا مرکز ہے جہاں بیک وقت متحد ہو کر مظلومیت کی حمایت میں طاغوتیت کے خلاف بلا تفریق مذہب و ملت اسوۂ انسانیت کا مظاہرہ کیا جاسکے،

تو اسکا جواب یہی ہے کہ ایسا مرکز کہ جہاں ظلم و استبداد کے خلآف ہونے والے انسانیت پسند افراد کے عظیم اجتماع کی مثال نہیں ملتی ایسا مرکز تحریک "اربعین حسینی" ہے اربعینِ حسینی_ ایک ایسا پر فیض موقع ہے جب لاکھوں کی تعداد میں زائرین ایک مرکز اتحاد پہ جمع ہوکر دنیا کو کربلا و قیام حسینی سے درس لیتے ہوۓ یہ پیغام دیتے ہیں کہ ہم اس تحریک جاویداں کے محرک یعنی حضرت ابا عبداللہ الحسین علیہ السلام کی ذات والا صفات کے ہم فکر و ہمرکاب ہیں جنھوں نے اپنی قربانی سے استقلال پسندی ، معنوی و فکری آزادی کو فروغ دیا ،اربعینِ حسینی _ دور حاضر کا وہ مرکز اتحاد ہے جہاں اہل عزا کا بلا تفریق مذہب و مسلک کثیر تعداد میں شامل ہونا طاغوت کے حامیوں کے منھ پر ایک زور دار طمانچہ ہے اس لیے کہ اہل باطل بخوبی جانتے ہیں'کہ یہی وہ سر زمین ہے جسکی فضاؤں میں انقلاب حق و عدم حمایت باطل کی آواز گونجتی ہے اور یہی وجہ ہے گذشتہ ادوار میں کئی بار اس تحریک پر پابندی عائد کی گئ،اربعینِ حسینی _ کے دلسوز موقع پر حضرت امام حسین علیہ السّلام کی عظیم و نا قابل فراموش قربانی کی یاد تازہ ہوتی ہے جو عزاداروں اور دیگر استقلال پسند افراد کے دلوں میں انسانیت کے جذبے کو ابھارتی ہے ،اور اہل ایمان کے جذبۂ ایمانی و عشق ربانی کو تقویت بخشتی ہے،اور طاغوت کی استکباری و استعماری طاقتوں کیخلاف انقلابی روح کیلیئے عملی تحریک کی دعوت دیتی ہے، بیشک یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ اربعین حسینی کا اہمترین پیغام کربلا کا وہی آفاقی پیغام ہے جو حضرت امام حسین علیہ السّلام نے قتلگاہ کربلا سے دنیا کو دیا تھا،

دنیا کی نجات کا پیغام ،

حریت و استقلال کا پیغام،

ایمان و عرفان کا پیغام،

انسانیت کا پیغام،

طاغوت کی عدم حمایت کا پیغام،

در حقیقت اربعینِ حسینی میں شریک ہونے والے زائرین اس عظیم الاجتماع تحریک کے ذریعہ خدا کی معرفت و اطاعت ،انسانیت، فکری حریت ،طاغوت کی عدم حمایت، اور مظلومین و مستضعفین کی مدد و نصرت کیلئے تجدیدِ عہد کرتے ہیں اور دنیا‌ کو اس تجدیدِ عہد کا پیغام دیتے ہیں،تحریک اربعینِ حسینی کا اہمترین ہدف یہی ہے کہ اس تحریک کے عظیم اجتماع کے ذریعہ دنیا کو یہ بتایا جاۓ کہ جس توحید پرستی کی بقاء کیلیئے روز عاشورہ سنہ ٦١ ہجری میں حضرت امام حسین علیہ السّلام نے قربانی دی تھی اسی توحید پرستی میں انسانوں کی فکری آزادی کا راز پوشیدہ ہے جو انسانوں کو طاغوت کی غلامی سے محفوظ رکھتا ہے،نیز روایات میں کثرت سے زیارت امام حسین علیہ السّلام کے متلعق بیان ہونے والی اھمیت،افادیت، و عظمت کا راز اس حقیقت میں مضمر ہے کہ امام حسین علیہ السّلام کی زیارت کا اثر انسان کی روح کی گہرائیوں تک ہوتا ہے اور اگر امام حسین علیہ السّلام کی زیارت کا مثبت اثر انسان کی روح پر ہوجاۓ تو اسکے دل میں ایک ایمانی انقلاب برپا ہوتا ہے اور اسکی تاریک فکر کو جلا ملتی ہے بشرطیکہ انسان کی باطنی ظرفیت میں حضرت امام حسین علیہ السّلام کے حق کی واقعی معرفت ہو،خدا وند متعال بطفیل آل محمد اس بین الاقوامی تحریک اربعین حسینی کا تحفظ فرماے اور اسے ظہور حضرت حجت ارواحنا فداہ سے متصل فرماۓ۔

والسلام علی من اتبع الھدیٰ

الشیخ محمد وقارؔحیدر'املوی

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .