حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، جواد الائمہ اسلامک فاؤنڈیشن پاکستان مقیم قم کے تحت منعقدہ عشرۂ محرم الحرام کی دوسری مجلس عزاء سے حجت الاسلام شیخ اصغر علی مقداد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امام حسین علیہ السّلام کی تحریک کا فلسفہ اور ہدف، کفر اور استکبار کے محاذ سے نمٹنا اور مقابلہ کرنا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ امام حسین علیہ السّلام کی یہ عظیم تحریک مختلف جہتوں کی حامل ہے اور اس عظیم تحریک کی تشکیل کی بنیاد اور اسباب خاص اہمیت کے حامل ہیں، قیام عاشورہ کے اسباب کی وضاحت کئی زمانے سے مسلمان اور خاص کر شیعہ کرتے آ رہے ہیں اور رہتی دنیا تک، اس عظیم تحریک کی تبیین جاری رہے گی، کیونکہ یہ تحریک ہر عصر کی نسلوں کیلئے نمونۂ عمل ہے لہذا ہر دور آپ علیہ السّلام کی اس پاک تحریک کی وقت کے تقاضوں کے مطابق تحلیل ہوتی رہے گی۔
حجت الاسلام مقداد نے سورۂ نحل کی 36 ویں آیت «وَ لَقَدْ بَعَثْنا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ فَمِنْهُمْ مَنْ هَدَى اللَّهُ وَ مِنْهُمْ مَنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلالَةُ۔۔۔» بے شک ہم نے ہر امت میں ایک نبی (لوگوں کو بتانے کیلئے) مبعوث کیا ہے کہ وہ اللہ کی عبادت کریں اور طاغوت (اور خدا کے سوا کسی اور معبود) سے بچیں، پس کچھ لوگ ایسے ہیں جن کو اللہ نے ہدایت دی ہے اور ان میں سے کچھ گمراہ ہونے کے مستحق ہیں، کے ذیل میں کہا کہ لفظ’’امة‘‘ کی اصل ’’ام‘‘ سے ہے اور ام سے مراد وہ چیز ہے جو کسی دوسرے کو اپنے ساتھ جوڑتی ہے۔ ہر وہ گروہ جس میں کسی قسم کا اتحاد اور اشتراک ہو اسے امت کہتے ہیں۔
انہوں نے مذکورہ بالا آیت کی تفسیر کرتے ہوئے مزید کہا کہ آیت میں "طاغوت" کا استعمال، بغاوت کو بڑھا چڑھا کر کرنے کیلئے کیا جاتا ہے۔ قرآن میں شیطان، ظالم، متکبر لوگ اور بت اور جو خدا کی سرکشی اور نافرمانی کا سبب ہیں، کو "طاغوت" کہا گیا ہے۔ یہ لفظ واحد اور جمع دونوں میں استعمال ہوتا ہے۔«يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ» اور«أَوْلِياؤُهُمُ الطَّاغُوتُ» اللہ تعالیٰ نے تمام لوگوں کیلئے ہدایت کے اسباب بھیجے ہیں، «بَعَثْنا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا» لیکن ایک گروہ ہدایت قبول کرتا ہے اور پاتا ہے،«فَمِنْهُمْ مَنْ هَدَى اللَّهُ» " پس وہ اللہ کی ہدایت سے ہے" اور ایک گروہ انکار کر کے گمراہ ہو جاتا ہے۔ «مِنْهُمْ مَنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلالَةُ» پس ہدایت اسی کی طرف سے ہے، لیکن گمراہی ہماری طرف سے ہے۔
حجت الاسلام شیخ اصغر علی مقداد نے کہا کہ «يُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ» "خدا ظالموں کو گمراہ کرتا ہے" اور اس آیت میں بیان ہوتا ہے «وَ ما يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفاسِقِينَ» "اور ہم گمراہ صرف فاسقوں کو کرتے ہیں" اللہ تعالیٰ فاسقوں کے علاوہ کسی کو گمراہ نہیں کرتا۔
انہوں نے انبیائے کرام علیہم السّلام کی زمہ داریوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ انبیاء کا مشن کسی خاص نسل، علاقے یا قبیلے سے مخصوص نہیں تھا۔ «بَعَثْنا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا».
انہوں نے مزید کہا کہ توحید کی دعوت اور ظلم سے بچانا، انبیائے الٰہی کے ایجنڈے میں سرفہرست رہا ہے۔ «اعْبُدُوا اللَّهَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ». کیونکہ ظالموں اور جابروں کی حکومت کو قبول کرنے کے ساتھ خدا کی عبادت سازگار نہیں ہے۔ «اعْبُدُوا اللَّهَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ»۔
حجت الاسلام مقداد نے کہا کہ عبادت اور خدا سے جڑے رہنے سے انسان ظالموں سے مقابلے کی طاقت پاتا ہے۔ «اعْبُدُوا اللَّهَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ». اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنا راستہ انتخاب کرنے کا اختیار دیا ہے۔ فَمِنْهُمْ مَنْ هَدَى ... وَ مِنْهُمْ مَنْ حَقَّتْ …
انہوں نے امام حسین علیہ السّلام کے قیام کا فلسفہ اور مقصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ امام حسین علیہ السّلام اپنے قیام کی خود تشریح کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:«أَیُّهَا النّاسُ؛ إِنَّ رَسُولَ اللّهِ(صلى الله علیه وآله) قالَ: «مَنْ رَأى سُلْطاناً جائِراً مُسْتَحِلاًّ لِحُرُمِ اللهِ، ناکِثاً لِعَهْدِ اللهِ، مُخالِفاً لِسُنَّةِ رَسُولِ اللهِ، یَعْمَلُ فِی عِبادِاللهِ بِالاِثْمِ وَ الْعُدْوانِ فَلَمْ یُغَیِّرْ عَلَیْهِ بِفِعْل، وَ لاَ قَوْل، کانَ حَقّاً عَلَى اللهِ أَنْ یُدْخِلَهُ مَدْخَلَهُ». ألا وَ إِنَّ هؤُلاءِ قَدْ لَزِمُوا طاعَةَ الشَّیْطانِ، وَ تَرَکُوا طاعَةَ الرَّحْمنِ، وَ اَظْهَرُوا الْفَسادَ، وَ عَطَّلُوا الْحُدُودَ وَاسْتَأْثَرُوا بِالْفَیءِ، وَ أَحَلُّوا حَرامَ اللّهِ، وَ حَرَّمُوا حَلالَ اللّهِ، وَ أَنَا أَحَقُّ مَنْ غَیَّرَ.
حجت الاسلام مقداد نے امام حسین علیہ السّلام کے مذکورہ بالا خطبے کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت بڑی اور عجیب بات ہے، اولا امام علیہ السّلام"ناس" سے مخاطب ہیں اور ہم بھی ناس میں سے ہیں، لہٰذا یہ خطاب ہم سے بھی ہے۔ یہ خطاب صرف اہل ایمان سے نہیں ہے، یہ صرف ان صحابہ سے نہیں ہے جو امام کے ہمراہ تھے اور نہ صرف اس وقت کے لوگوں کیلئے ہے، بلکہ ہر زمانے کے انسانوں سے مخاطب ہیں۔امام علیہ السّلام نبی (ص) کے قول سے استناد کرتے ھوئے، اپنی تحریک کے فلسفہ اور ہدف کا اظہار فرما رہے ہیں: میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی بات پر عمل کر رہا ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے مجھے ایسا کرنے کا حکم دیا۔ نبیﷺ نے کیا فرمایا؟ مَن رَأَى سُلطاناً جائِرا؛نبی پاک فرماتے ہیں کہ جو کوئی طاقت، ظالم طاقت کا مشاہدہ کرتی ہے، سلطان کا مطلب صرف بادشاہ نہیں ہوتا۔ سلطان کا مطلب طاقت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آج سلطان کفر و استکبار کا محاذ ہے، صہیونیت اور امریکہ کا محاذ ہے، یہ سلطان ہے۔ آج ہم دنیا میں ہر جگہ ظلم دیکھ رہے ہیں اور ہر جگہ جنگی جنون، نوآبادیاتی دباؤ، قوموں کا خون چوسنا، قوموں پر دباؤ ڈالنا، خانہ جنگیاں اور دیگر آفات پیدا کرنا، یہ سب عالمی استکبار کی ایما پر انجام پا رہا ہے۔
حجت الاسلام مقداد نے کہا کہ امام علیہ السّلام قیام کو میں اپنی زمہ داری سمجھتے تھے اس لئے قیام فرمایا۔ رہبرِ انقلابِ اسلامی فرماتے ہیں: بعض لوگ کہتے ہیں امام علیہ السّلام نے قدرت اور حکومت کیلئے قیام فرمایا ہے، بعض مومنین بھی یہی کہتے ہیں یہ غلط ہے، لیکن رہبرِ انقلابِ اسلامی فرماتے ہیں کہ امام علیہ السّلام نے قیام کیا ہے، اپنی زمہ داری کو پورا کرنے کیلئے، لیکن زمہ داری انجام دیتے ہوئے ممکن ہے کہ انسان کے ہاتھ قدرت و طاقت آئے، اس میں کیا عیب ہے۔؟
یاد رہے جواد الائمہ اسلامک فاؤنڈیشن پاکستان مقیم قم کے تحت حسب سابق امسال بھی عشرۂ محرم الحرام کی مجالس کا سلسلہ، حسینیہ جواد الائمہ میں جاری ہے۔